کورونا تو آگیا ہے، اور ابھی تک نہ اس کا علاج دریافت ہوا اور نہ ویکسین۔ خدا کرے جلد از جلد دونوں دریافت ہوں، تاکہ خلقِ خدا اس مصیبت سے نکل آئے۔ ورنہ اس قسم کی مصیبت جو انسانوں کو یکایک غیر سماجی بنادے کہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب بھی نہ ہوں، ہاتھ بھی نہ ملاؤ اور معانقہ تو بالکل بھی نہ کرو۔ سفر اور زیادہ میل جول سے بھی اجتناب کرو اور اجتماعات سے تو یکسر لاتعلق ہوں، تو یہ بندشیں نفسیاتی الجھنیں اور نفسیاتی بیماریاں پیدا کرتی ہیں اور پھروہ بیماری عمر کے ساتھ چلتی ہے، جس سے متعلقہ مریض تقریباً عضوئے معطل بن جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ انسانوں پر رحم فرمائے، آمین!
اب ایک مدت تک عدم سماجیت کا یہ عمل کچھ ذہنی تبدیلیاں بھی لے آئے گا۔ افراد کی ذہنیت بھی بدلے گی، اور معاشرے کی ذہنیت میں بھی کچھ تبدیلی آئے گی، تو بعد از کورونا دنیا میں معاشرت، معیشت اور سیاست ہرتین ایک نیا رُخ اختیار کریں گے۔یعنی ہر تین کی ایک نئی تشکیل ہوگی۔ کیوں کہ ان تینوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مقامی ہوں کہ عالمی، کہ ویسے بھی آزادانہ نقل وحمل کے ذرائع اور پھر ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک ہی گاؤں یا شہر بنادیا ہے۔
دنیائے انسانیت میں سیاست کسی نہ کسی نظریے، نظام اور پروگرام کے تحت چلتی ہے۔ ان تینوں پر بھی معاشرت اور معیشت کا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے پر ان ساروں کا اثر انداز ہونا، ایک دوسرے پر اس انداز سے کہ حکما بحث کرتے ہیں کہ معاشرت، سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہو یا کہ سیاست، معاشرت اور معیشت پر اثر ڈال گیا، یا معیشت، سیاست اور معاشرت پر اثر انداز ہو۔ البتہ جن نظریات کی اساس پر کہیں کہیں جو نظام استوار ہوا اور اس کے حاملین برسراقتدار آئے، اور بعد میں اس نظریے کی اساس پر آنے والا اقتدار ختم ہوگیا بھی، تو نظریہ بطور ایک فلسفہ،سائنس، علم اور ادب کے پھر بھی بحث وتمحیص کے میدان میں رہتا ہے۔ مثلاً سوشلزم جس کا طوطی روس اور چین میں بولتا تھا، جب کہ اب وہاں اس کو سرمایہ دارانہ نظام کا پانی دیا گیا ہے، لیکن سوشلزم تو اب بھی تعلیمی نصاب میں بطور ایک سائنس وعلم اور فلسفہ وادب کے پڑھایا جاتا ہے۔ یہی حال سرمایہ دارانہ نظام کا بھی ہے۔ یہی صورت حال فاشزم کا بھی ہے اور وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کو ایک طویل ریسرچ کے بعد ایک سائنس یا فلسفے کی شکل دی گئی ہے، اور اس کے بعض اصول لوگوں کو بھاتے بھی ہیں کہ انسانی ذہن ودماغ کی تخلیق ہیں۔
ہر ایک چیز کے تجزیے کے لیے سماجی مرکبات کا فہم حاصل کرنا، اولین زینہ ہے۔ اس لیے کہ سماج اور معاشرہ اپنی ثقافت رکھتا ہے۔افراد سماج کا اتباع کرتے ہیں۔ فطرت کی طرح سماج کے بھی قوانین ہوتے ہیں۔ جس طرح فطرت کے قوانین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح سماج کے قوانین سے بھی یک دم تو صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔اس کو یکسر مسترد کرنے سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ہاں، ان قوانین میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، لیکن اس کے لیے طریقۂ کار ہوتا ہے اور وہ وقت چاہتا ہے۔
اب جس طرح ایک فرد فطرت کے قوانین کے مطابق آگے بڑھتا اور تبدیل ہوتا ہے، اس طرح سماج بھی ہے۔کسی ملک وقوم کی ترقی بھی وہاں کے مذہب، اخلاقیات اور نظامِ زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھا جاتا ہے۔ لیکن وبائیں اور جنگیں بعض اوقات جلدی تبدیلیاں لے آتی ہیں۔
اب کورونا کی اس وبا کے بعد معاشرت کی صورت حال کیا ہوگی؟
ضرور تبدیلی آئے گی کہ ا بھی سے آئی بھی ہے۔ معیشت تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی تو بات ہی کیا، ترقی یافتہ ممالک کی معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔ اور اصل اثر تو کئی مہینے بعد ظاہر ہوگا۔ کیا اس قسم کا اور اس سطح کا سفر ہوگا، ہوائی جہازوں کی بھرمار ہوگی جو کورونا سے پہلے تھی؟ تو ہمارے خیال میں اس کا تو امکان نہیں، اور اس قسم کا سفر نہ ہوگا، تو ذرائع نقل وحمل کی معیشت، ساتھ ساتھ ہوٹل کا کاروبار کتنا متاثر ہوگا؟ اور یہ نقل وحمل اور اسفار تو زیادہ تر تجارت اور جابز کے لیے ہوتے ہیں، تو تجارت کی کیفیت کیا ہوگی؟ اور اگر ان سب پر زد آئے گا، تو کتنے کروڑوں لوگ ہر جگہ بے روزگا رہوں گے، اور دولت کی فراوانی کی جو دوڑ ہے، اس پر زبردست اثر پڑے گا،افراد کے حوالے سے بھی اور ممالک کے حوالے سے بھی ۔ابھی سے ممالک نے اپنے اپنے پلان بنانے ہوں گے۔ کیوں کہ جنگ یہ ہے کہ سرمایہ کاری، تجارت اور عالمی منڈیوں پر کس کا کنٹرول ہو؟ اس کے لیے وہ ذرائع پیداوارپر قبضہ میں مصروف رہے ہیں اوررہیں گے۔
کارل مارکس نے کہا تھا کہ ذرائع پیداوار ہی تہذیبی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ اگر بڑی بڑی قوتوں کے معاشی حالات اچھے نہ ہوں، تو پسماندہ ممالک یا ترقی پذیر ممالک جو زیادہ تر ا ن پر تکیہ کرتے ہیں، ان کو یہ کیا دے سکیں گے؟ وہ مالیاتی نظام جو جنگِ عظیم دوم کے بعد تشکیل دیا گیا تھا، ہمارے خیال میں تو سسکیاں لے رہا ہے۔ تیل کی دولت جو دنیا کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی، اس کا بیرل تو خرچہ بھی پورا نہیں کرتا، تو اسلحہ پیدا کرنے والے ممالک جو اس قسم ممالک کو نہ صرف یہ کہ اسلحہ فروخت کرتے بلکہ مارکیٹنگ کے لیے ان کو ایک دوسرے پر ڈالتے بھی تھے، وہ تو اس پوزیشن میں رہیں گے نہیں کہ اسلحہ خریدیں، تو وہ ان کو ایک دوسرے پر ڈالیں گے کس لیے؟ اس اساس پر تو بلاک بناکرتے تھے اور اسی اساس پر تعلقات بنائے جاتے تھے ۔
اب بہت سارے لوگوں نے گھر سے کام شروع کردیا ہے، جس سے آمدو رفت کا خرچہ ،آفس کا خرچہ کم ہوگا، بلکہ بہت سارے وہ لوگ جو آفس چلانے کے لیے درکار تھے، وہ بے روزگار ہوجائیں گے۔ زیادہ تر کام انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی سے ہوگا، اور اس میں ترقی ہوگی۔ جن کی ترقی ہوگی لوگ ان کے رویہ کو قبول کریں گے کہ یہی تو انسان کا مزاج ہے۔ کیوں کہ دیگر ممالک بھی اسی ٹیکنالوجی کو اپنائیں گے، لیکن رائلٹی تو پہلے والے کو ملے گی ہرجگہ سے۔تو لگتا تو ایسا ہے کہ ہر خطے کی زندگی مختلف ہوگی اور ہر ملک وقوم شاید اپنی افرادی قوت ،ذہنی استعداد اور جو وسائل ان کے پاس ہیں، ان کے مطابق زندگی گذارنے کا طریقہ اپنائیں گے۔شاید تجارات بھی اب عالمی کے بجائے علاقائی ہوں گی۔ یوں رویوں میں بھی تبدیلی آئے گی اور سٹریٹیجک حکمت عملی بھی تبدیل ہوگی۔ ایک جگہ ایک حکمت عملی کارگر ہوگی، لیکن دوسری جگہ وہ ناکام ہوگی۔ اب شاید جنگیں بھی واپس اپنے اصل پر چلی جائیں گی، یعنی ڈرونز وغیرہ نہیں، سیدھی سیدھی جنگ جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ ویسے بھی شاید اب مدتوں کسی ایک دوسرے کا ملک فتح کرنے کا نشہ نہیں چڑھے گا، اور پھریہ کہ ان بموں سے آپ تباہی تو پھیرسکتے ہیں، ملک کو تو نہیں فتح کرسکتے، تو یہ جو اربوں ڈالرز کا ماڈرن اسلحہ فروخت ہوتا رہتا ہے، شاید اب اس کی ضرورت نہ رہے۔
ان ساری چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ شاید کچھ خیر کی تبدیلیاں آئیں۔ البتہ اس نے دنیا کو احساس دلایا کہ اصل کام تعلیم اور صحت کا میدان ہے، جس میں کہ ترقی پذیر ممالک اور پسماندہ ممالک بہت پیچھے ہیں، بلکہ کورونا نے تو ترقی یافتہ ممالک کو بھی صحت کے میدان میں دکھا دیا کہ
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
قارئین، یہ بطور ایک طالب علم کے جو کچھ پڑھتا رہتا ہوں، اس سے جو کچھ فکر وذہن میں آجاتا ہے، اسے ایک خالص نیت سے صفحہ قرطاس پر اپنے ذہن کے تختے سے نقل کرتا ہوں اور دست بدعا ہوں کہ اللہ اس آفت کا جلد از جلد خاتمہ کرے، اور اسے انسانوں کو انسان بنانے کا ذریعہ بنادے، آمین!
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔