کورونا کی چھوتی لہر کا قہر

پاکستان کو اس وقت خاموش قاتل ’’ڈیلٹا ویرینٹ‘‘ نامی کورونا کی چوتھی لہر کا سامنا ہے، جس سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں شہری متاثر ہورہے ہیں اور قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ کورونا کا سب سے موثر سدباب تو ویکسین ہے لیکن دنیا بھر کے ماہرین اس پر متفق ہیں کہ ویکسین سے بھی 100 فی صد بچاؤ ممکن نہیں بلکہ 70سے 90 فیصد تک بچت کا امکان ہے۔ ہمارے ملک میں ویکسین کا عمل مکمل ہونے میں تو شاید کئی ماہ لگیں، تب تک ہمیں خود اپنا بچاؤ کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کورونا ’’ایس اُو پیز‘‘ پر بالکل ہی عمل نہیں ہو رہا۔ عوامی مقامات پر ماسک پہننے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ سب سے پہلے تو ہر ایک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کورونا ہمیں کسی بھی جگہ پر گھیر سکتا ہے۔ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ابتدا میں ماہرین کا خیال تھا کہ جسے ایک بار کورونا ہوجائے، اسے دوبارہ نہیں ہوسکتا ۔ اس کے جسم میں اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں۔ اب یہ تاثرغلط ہوچکا ہے۔ کورونا دو سری بار ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی اینٹی باڈیز کے زعم میں نہ رہیں۔
خاموش قاتل ’’ڈیلٹا ویرینٹ وائرس‘‘ کثیر علامات کا حامل ہے جو نہایت خاموشی کے ساتھ اندر ہی اندر انسانی جسم میں پنجے گاڑتا ہے، جس کا متاثرہ شخص کو فوری علم نہیں ہو پاتا۔ یہ انسانی جسم سے قوتِ مدافعت ختم کرکے پھیپھڑوں کومتاثر کرتا ہے۔ بعد میں مرض کی جو علامات ظاہر ہوتی ہیں اس میں تیز بخار، معدے کی خرابی، جسم میں شدید درد عام ہیں۔
کوروناکا عام ٹیسٹ”PCR” ہے، مگر بہت سے کیسوں میں یہ نیگٹو آ رہا ہے۔ اس لیے صرف پی سی آر نیگٹو آنے پر ریلیکس ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اگر علامات رہیں، تو دیگرٹیسٹ کروانا ضروری ہیں۔ ان کے ساتھ ایک چیسٹ ایکسرے بھی ضروری ہے، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ پھیپھڑے تو متاثر نہیں ہوئے۔ کوئی بھی چیسٹ کا ڈاکٹر یہ ایکسرے دیکھ کر تشخیص کر سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ معاملہ سنگین ہے، تو پھر ڈاکٹر عام طور سے سٹی سکین(HRCT) کا کہتے ہیں۔ اس سے بہت بہتر اندازہ ہوجاتا ہے۔ بہت بار مریض بظاہر سانس ٹھیک لے رہا ہوتا ہے، مگر آکسیجن سیچویشن ڈراپ ہونے لگتی ہے۔ مریض ایسے میں ہسپتال جانے اور آکسیجن لگوانے میں مزاحمت کرتے ہیں۔ انہیں سمجھانا چاہیے، کیوں کہ آکسیجن تیزی سے ڈراپ ہونے پر اچانک ہی بازی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ آکسیجن سیچوریشن کم ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ پھیپھڑے کورونا سے متاثر ہوچکے ہیں اور وہ ٹھیک کام نہیں کر رہے۔ اگر پھیپھڑے متاثر ہوچکے ہوں، تب مریض کو اچھی اور ہیوی ڈوز ادویہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں قہوہ جات، بھاپ وغیرہ روٹین میں کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔
ہمارے لیے واحد آپشن یہ ہے کہ اپنے آپ کو بہترین طبی حالت میں فٹ رکھیں۔ بلڈ پریشر، شوگر اور دل کے مریضوں کاکورونا کے حساب سے رسک فیکٹر زیادہ ہے۔ یہ مریض اپنی ادویہ کو باقاعدگی سے استعمال کریں اور کنٹرول رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط کریں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض اگلے چند ماہ کے لیے اپنی خوش خوراکی اور بدپرہیزی کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں۔ سادہ کھانا کھائیں۔ مرغن کھانوں کے بجائے سبزیاں لیں۔ ساتھ سلاد کا استعمال کریں۔ ممکن ہو، تو گندم کے آٹے کے ساتھ جو کا آٹا ملا کر روٹی کھائیں۔اس میں فائبر زیادہ ہے اور یہ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر دونوں کے لیے مفید ہے۔ صبح یا شام کے وقت کم از کم نصف گھنٹا واک کے لیے نکالیں۔ کورونا کے دوران میں قوتِ مدافعت سب سے اہم ہے، اسے مضبوط رکھیں۔ وٹامن سی، وٹامن ڈی اور زنک کا استعمال اس کے لیے مفید ہے۔ ان کے سپلیمنٹ عام ملتے ہیں۔ وٹامن سی کی چوسنے والی گولیاں ملتی ہیں جب کہ وٹامن ڈی کی چوسنے والی گولیوں کے ساتھ پورے مہینے کی ہیوی ڈوز ایک گولی کے ذریعے بھی لی جا سکتی ہے۔ ادرک، پودینے، لونگ، دار چینی کا قہوہ بھی دن میں ایک دو بار لے سکتے ہیں۔ اگر صبح شام بھاپ کی عادت ڈال سکیں، تو فائدہ ہوگا۔ کوئی اور احتیاط کرے نہ کرے، آپ باہر نکلتے وقت ماسک پہن کر خطرے کو خاصا کم کر سکتے ہیں۔
کیوں کہ احتیاط ہی زندگی ہے۔
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔