پورے ملک میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوچکا ہے۔ واپڈا اہل کاروں کے ساتھ مقامی پولیس بھی اس آپریشن میں شامل ہے۔ متعدد بجلی چور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اور اُن سے بھاری جرمانے وصول کیے جاچکے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/page/15/
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاؤر ڈویژن نے وزارتِ قانون سے مل کر صدارتی آرڈیننس تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت بجلی چوروں کو پکڑنے کے لیے رینجرز کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور ملک بھر میں گرینڈ آپریشن کے ذریعے بجلی چوروں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دی جاسکے گی۔ حکومت کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ نئے آرڈیننس کے تحت بجلی چوری کیسوں کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی، جو تین سے چار ماہ میں کیس کا فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی۔ بجلی چوروں کو چھے ماہ سے تین سال تک سزا دینے اور پچاس ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
دیکھا جائے تو بجلی چوروں کے خلاف مجوزہ اقدامات کرنے کا حکومتی فیصلہ خوش آیند ہے۔ یقینا اس سے بجلی چوری میں نمایاں کمی ہوگی۔ لائن لاسز کی مد میں بھی کمی ہوگی اور صارفین کو بجلی چوروں کی چوری شدہ بجلی کا بِل ادا نہیں کرنا پڑے گا…… لیکن اس کے مضمرات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہوگا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب خصوصی عدالتیں بنیں گی، تو اُن کے لیے عملہ بھی الگ سے رکھنا پڑے گا۔ عملے کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات پر بھاری رقم خرچ ہوگی۔ رینجرز کی خدمات لینے پر محکمے کو اخراجات ادا کرنے پڑیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دھیلے کی بڑھیا کے سر منڈانے پر پورا ٹکا خرچ ہوجائے…… یعنی بجلی چوری کی ریکوری کی آمدن سے اخراجات کا حجم بڑھ جائے۔ بہتر ہوتا کہ بجلی چوری کی وجوہات کا جائزہ لے کر ان وجوہات کا سدِباب کیا جاتا۔ یقینا اس سے بجلی چوری میں نمایاں کمی آ جاتی اور باقی کام واپڈا ملازمین کو بجلی چور پکڑنے پر "Insentive” کا اعلان کرکے پورا کرلیا جاتا۔
یاد رکھیے! چوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کوئی چیز قوتِ خرید سے باہر ہوجائے اور اُس کا حصول بھی ضروری ہو، تب ضرورت مند چوری کی طرف راغب ہوگا۔ غیر منصفانہ تقسیم اور طرزِ عمل بھی چوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آج بجلی کی قیمت عوام کی قوتِ خرید کے مطابق کردیں۔ دعوا سے کہتا ہوں کہ بجلی چوری کرنے والوں کی اکثریت چوری نہیں کرے گی۔ اپنی قبر خراب کرے گی، نہ دنیا میں رسوا ہوگی اور نہ عوام تھانہ کچہری کے چکر ہی کاٹیں گے۔ ساتھ میں الیکٹرک کمپنیوں کا پیسا بجلی چوروں کو پکڑنے اور اور لیگل ٹیموں پر خرچ ہونے سے بچ جائے گا۔ یوں عوام اور اداروں میں اعتماد کا رشتہ بھی قائم رہے گا۔ اس کے علاوہ مراعات یافتہ طبقے کومفت بجلی کی ترسیل روک دیں۔
بجلی کی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ آئی پی پیز یعنی بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے کیے گئے معاہدے بھی ہیں۔ یہ کمپنیاں با اثر بڑے سرمایہ داروں، صنعت کاروں کی ہیں، جن میں سے بعض وزیر بھی رہے ہیں۔ معاہدوں کے مطابق ان کمپنیوں کو ان کی "Capacity” یعنی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائی کرنا پڑتی ہے۔ یہ آئی پی پیز ایسی جونکیں ہیں، جو ہماری معیشت کی رگوں سے خون نچوڑ رہی ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ان آئی پی پیز کے سربراہان کے ساتھ ایک میٹنگ کرکے انھیں قائل کیا جائے کہ بلاجواز ادائیوں کا سلسلہ اب رُکنا چاہیے۔ اگر ’’کک بیکس‘‘ اور کمیشن کا لالچ نہ ہو، تو حکومتی زعما کے لیے ایسے لوگوں کو قائل کرنا مشکل نہیں ہوتا۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ رات آٹھ بجے مارکیٹیں، بازار، شادی ہالز اور شاپنگ مال بند کروا کر توانائی کی بچت کی جائے گی۔ یہ ایک قابلِ عمل منصوبہ ہے۔ ماضی کی حکومتیں اس پر عمل کروانے میں ناکام رہی ہیں۔ نگران حکومت کو سیاسی مجبوری نہیں۔ سپہ سالار بھی اس کے ساتھ ہے، جس پر تاجر برادری بہرحال اعتماد کرتی ہے۔ باقی دنیا میں سورج کی روشی اور حرارت سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ ہمیں بھی اب اُسی ڈگر پر چلنا ہو گا۔
گذشتہ دنوں ایک جعلی نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر نظر آیا، جس میں 30 ستمبر سے 5000 روپے کے نوٹ کی بندش کا فرمان تھا۔ سٹیٹ بنک نے اس نوٹیفکیشن کو جعلی قرار دیتے ہوئے ایسی کسی خبر کی تردید کی ہے، مگر دیکھا جائے، تو یہ ایک زبردست تجویز ہے۔ شنید ہے کہ بعض لوگوں نے پورے پورے کمرے لوٹ مار کرکے بڑے نوٹوں سے بھر رکھے ہیں۔ اس لوٹ مار کی دولت کو باہر آنا چاہیے۔
اُدھر پنجاب کے سیکرٹری خوراک اور انتہائی ایمان دار آفیسر میاں زمان وٹو نے چند روز پہلے شوگر مافیا کی کرپشن بے نقاب کی تھی۔ اُنھوں نے بتایا تھا کہ شوگر مِل مافیا نے عوام کی جیبوں سے 50 ارب روپے لوٹ لیے۔ شوگر ملز کی فی کلو چینی پر منافع سمیت لاگت 95 روپے فی کلو بنتی ہے۔ اُنھوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ 7 لاکھ ٹن سے زائد چینی افغانستان سمگل کر دی گئی ہے۔ میاں زمان وٹو کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے…… تو کیا شوگر مافیا جیت گیا ہے؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔