تحقیق و تحریر: مقبول ملک 
معروف جرمن فلسفی ’’ارنسٹ ٹُوگنڈہاٹ‘‘ (Ernst Tugendhat) تریانوے (93) برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔
یہ جرمن مفکر عہدِ حاضر کے لسانیاتی تجزیاتی فلسفے کے علم بردار اہم ترین فلسفیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اُن کا انتقال جنوبی جرمن شہر فرائی بُرگ میں ہوا۔
’’ارنسٹ ٹُوگنڈہاٹ‘‘ کا نظریہ یہ تھا کہ ابلاغ کے لیے انسانوں کے استعمال میں آنے والے لسانیاتی ڈھانچوں کا تجزیہ ہی وہ کلید ہے، جس کی مدد سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ انسان سوچتا کیسے ہے؟
ٹُوگنڈہاٹ دورِ حاضر کے اہم ترین جرمن فلسفیوں میں سے ایک تھے اور فرائی بُرگ میں ان کا انتقال پیر 13 مارچ کے روز 93 برس کی عمر میں ہوا۔
اس بات کا سہرا بھی اسی نامور فلسفی کے سر جاتا ہے کہ انھوں نے 1970ء کی دہائی میں جرمنی میں لسانیاتی تجزیاتی فلسفہ متعارف کرایا تھا۔
ٹُوگنڈہاٹ اتنے بڑے فلسفی تھے کہ 2020ء میں ان کی سال گرہ کے موقع پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے ساتھی اور عہدِ حاضر کے ایک اور نام ور اور تاحال زندہ جرمن فلسفی ’’ژُرگن ہابرماس‘‘ نے لکھا تھا: ’’ارنسٹ ٹُوگنڈہاٹ نے اپنی سوچ سے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔‘‘
٭ ارنسٹ ٹُوگنڈہاٹ کون تھے ؟
ارنسٹ ٹُوگنڈہاٹ 1930ء میں یہودی والدین کے گھر برنو نامی اس شہر میں پیدا ہوئے تھے، جو موجودہ چیک جمہوریہ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ پھر جرمنی پر نازی حکم رانی کے دور میں وہ اور اُن کا خاندان 1938ء میں فرار ہوکر پہلے سوئٹزرلینڈ اور پھر جنوبی امریکہ چلے گئے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد انھوں نے امریکی ریاست کیلیفورنیا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے کلاسیکی فلسفے کی تعلیم حاصل کی اور 1949ء میں وہ اس لیے واپس یورپ آ گئے تھے کہ اُس دور کے عظیم فلسفی مارٹن ہائڈیگر کے فلسفے کی تعلیم حاصل کر سکیں۔ 1951ء کے بعد وہ ذاتی طور پر فرائی بُرگ میں ہائڈیگر کے لیکچرز میں شرکت بھی کرتے رہے تھے ۔
ارنسٹ ٹُوگنڈہاٹ کئی جرمن شہروں کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے بھی رہے تھے، جن میں فرائی بُرگ، ہائیڈل برگ، ٹِیوبِنگن او برلن بھی شامل تھے۔ ان کے بنیادی فلسفیانہ تصورات میں سے اہم ترین تصور یہ تھا: ’’بنیادی لسانیاتی ڈھانچوں پر غور کرکے ہی ہم انسانی فہم پر کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔‘‘
’’اخلاقیات کی بنیاد صرف سماجی معاہدے‘ ‘:۔
1980ء کی دہائی میں ٹُوگنڈہاٹ کی عملی فلسفے میں دلچسپی بہت بڑھ گئی تھی۔ تب وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اخلاقیات کی بنیاد صرف سماجی معاہدوں پر ہی رکھی جا سکتی ہے، نہ کہ قطعیت کے غیر مادی نظریات یا آزادی کے آئیڈلسٹ تصورات پر۔
ٹُوگنڈہاٹ مساوات کے نظریے کو بھی انتہائی اہم خیال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’’ہر کسی کا برابری کی سطح پر احترام کیا جانا چاہیے…… نہ کہ کسی کو کسی کام یا کسی چیز کے لیے آلۂ کار بنایا جائے۔‘‘
1992ء میں وہ ایک بار پھر جنوبی امریکہ لوٹ گئے تھے، تاکہ سانتیاگو دے چلی میں تعلیم دے سکیں۔ پھر وہ دوبارہ یورپ لوٹے، تو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر وقت ٹِیوبِنگن میں رہے۔ 2013ء میں وہ فرائی بُرگ منتقل ہو گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔
٭ ناممکن کا ادراک:۔
ارنسٹ ٹُوگنڈہاٹ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے کہ کسی بھی خاص حتمی فلسفیانہ سچائی تک پہنچنا ناممکن ہے۔ انھوں نے اسی ’’ناممکن‘‘ کی اپنے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا: ’’مَیں اپنی رائے ہمیشہ بدلتا ہی رہا ہوں۔ میرا تمام سوالوں کے بارے میں رویہ ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ مَیں کبھی تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔