میرے ایک چچا جنہیں چاول کھانے سے بے پناہ رغبت ہے۔ ان کا قول ہے، چاول کھانے سے بھلا کس کا پیٹ بھرتا ہے!
وہ تو جب کھاتے کھاتے جبڑے دکھنے لگتے ہیں، تو مجبوراً محاذِ جنگ سے پسپائی اختیار کرلینی پڑتی ہے۔ ہاتھ رک جاتے ہیں، لیکن دل پینترے بدل بدل کر وار کرنے سے باز نہیں آتا۔ قابیں کی قابیں گرتی چلی جاتی ہیں۔
یہی حال بہت سے ایسے لوگوں کا ہے، جو بولنے اور لکھنے کے محاذ پر ڈٹے ہوتے ہیں۔
آپ نے یقینا بہت سے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے جنہیں بس بولنے کا شوق ہے۔ کیا بول رہے ہیں، کیوں بول رہے ہیں، کہاں بول رہے ہیں، کس سے بول رہے ہیں، اس بات سے نہ توانہیں کوئی دلچسپی ہے اور نہ انہیں اس کا ہوش ہے۔ الفاظ کا ایک بے قابو ہجوم ہے، جو ان کے اندر سے امڈا چلا آ رہا ہے۔ سامعین ہنس رہے ہیں، سامعین رو رہے ہیں، سامعین سو رہے ہیں، سامعین اُٹھ کر بھاگ گئے ہیں، اور جو بچ گئے ہیں، وہ زبانِ حال سے چیخ چیخ کر احتجاج کر رہے ہیں۔ بھئی، ہمیں معاف کردو۔ ہم بہت گنہگار ہیں، لیکن اتنے بھی نہیں ہیں کہ اس طرح مارے جائیں، دیکھو ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ انہی کے حال پر رحم کھالو، ہماری توبہ، باپ دادا کی توبہ، ان کی بھی توبہ جو ابھی پیدا نہیں ہوئے، اور ان کی بھی جو اپنی پیش بینی کی یا خوش بختی کی بدولت پہلے پہر یہاں سے اُٹھ کر چلے گئے۔ ہم آئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے!
لیکن جناب قادر الکلام ان تمام درخواستوں، التجاؤں کو روندتا چلا جاتا ہے، بولتا چلا جاتا ہے۔
یہی حال بہت سے لکھنے والوں کا ہے۔ قلم کی ننگی پیٹھ ہے اور وہ ہیں۔ اُڑے چلے جا رہے ہیں۔ کہاں جارہے ہیں، کیوں جارہے ہیں، اس کی انہیں کوئی پروا نہیں۔ کوئی ایک آدمی بھی خوش آمدی کے لیے نہیں آئے گا۔ کوئی ایک بھی جھوٹے منھ چائے کی پیالی تک کے لیے نہیں پوچھے گا۔ انہیں خبر ہے، لیکن پھر بھی وہ چلے جا رہے ہیں، شرق و مغرب کو فتح کرنے، مضامین کے ڈھیر لگ رہے ہیں، غزلوں پر غزلیں چڑھی آ رہی ہیں، نظموں کی ندیاں بہی چلی جا رہی ہیں، کتابیں چھپ رہی ہیں، تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں، تقریریں کروائی جا رہی ہیں، خبریں لگ رہی ہیں، ادبی صفحات کے انچارج صاحبان کے ناز اٹھائے جا رہے ہیں، انہیں شعر شناسی میں ایذرا پاؤنڈ (Ezra Pound) سے بہت آگے کی کوئی چیز ہونے کی خوش خبری دی جارہی ہے۔ ریڈیو، ٹی وی اور بیرونِ ملک مشاعروں میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے وہ کچھ کیا جارہا ہے جس کا خیال ہی ذرا سی انا اور خود داری رکھنے والے شخص کو جان سے مار ڈالنے کے لیے کافی ہے۔
الغرض، یہ سب کچھ جن کا نام لے لے کر کہا جا رہا ہے، یہی بے چارے بیچ میں سے غائب ہیں۔ جن کی ذہنی سطح بلند کرنے کے لیے اس ساری دوڑ دھوپ کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔ وہی کہیں نظر نہیں آتے، یعنی قارئین۔
لکھاری اب لکھتا چلا جا رہا ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس کے پاس لکھنے کے لیے کچھ ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کو قلم چلانا آتا ہے۔ پڑھنے والے کیا سوچیں گے، کیا کہیں گے؟ قلم کار کو اس سے کیا غرض! اسے تو کاغذ کے اُجلے بدن کو لہولہان کرنے میں لطف آتا ہے، تو وہ کررہا ہے۔
وہ اس بات کو اہمیت نہیں دیتا کہ وہ آدمی جو پان کے کھوکھے پر بیٹھ کر کاغذ میں پان لپیٹ لپیٹ کر دے رہا ہے۔ وہ کاغذ سے زیادہ مناسب کام لے رہا ہے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔