محترم ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب رضا اسلم صاحب! اُمید ہے آپ صاحبان بخیر و عافیت ہوں گے۔
محترم! اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم عوام کی جیب سے ’’مملکتِ خداداد‘‘ کا پورا نظام چلتا ہے۔ ایک چھوٹی سی چاکلیٹ سے لے کر بجلی و گیس بل تک ہمارا خون نچوڑ کر اس ریاست کا خزانہ بھرا جاتا ہے۔ پھر اُس خزانے سے آپ کے اور ہمارے آقا وزیرِ اعظم عمران خان، تمام ’’چیف صاحبان‘‘ اور آپ جیسے اعلیٰ افسران نہ صرف تنخواہیں لیتے ہیں بلکہ دیگر مراعات یعنی گاڑی، اُس کا ایندھن، بنگلہ، سیکورٹی کے نام پر موبائل پولیس اور اس قبیل کی دیگر اشیا جیسے آپ ذکر شدہ تمام حضرات کے لیے شیرِ مادر ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ بدلہ میں وزیرِ اعظم مع تمام چیف صاحبان (چیف آف آرمی سٹاف، چیف جسٹس و دیگر) اور آپ جیسے اعلیٰ افسران اس بے بس و لاچار قوم کے خادم ہوں گے، اس کی حفاظت فرمائیں گے اور ان کے آرام و سکون کا بطورِ خاص خیال رکھیں گے۔ ان خدمات کے عوض آپ تمام صاحبان اس قوم پر کوئی احسان نہیں جتائیں گے کہ یہ قوم (آدھی سے زیادہ) بھوکی سوتی ہے، مگر آپ صاحبان کی شان میں کوئی کمی نہیں لانے دیتی۔
محترم! آپ صاحبان کا ’’قیمتی وقت‘‘ ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ سیدھا مطلب کی بات کی جائے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا کہ آپ صاحبان کی شان اُس خزانے سے برقرار ہے، جسے میرے جیسے بھوکے ننگے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بھرتے ہیں۔ اس لیے آپ صاحبان کا حق بنتا ہے کہ آپ ہمارے آرام کا بندوبست فرمائیں گے۔
محترم! یکم دسمبر 2019ء کی صبح ٹھیک 12 بجے جب آپ، کمشنر صاحب، ڈی آئی جی صاحب اور اس شہرِ ناپرساں (مینگورہ) کے بے تاج بادشاہ حضرتِ اشفاق انورصاحب (ڈی پی اُو سوات)شائد محوِ استراحت تھے، اور مجھ جیسے مزدور دن بھر کی مشقت کے بعد آنکھ بند کرکے ابھی آدھ گھنٹا آرام بھی نہیں کر پائے تھے کہ یہ شہرِ ناپرساں دھماکا کی سی بھاری آواز سے گونج اُٹھا۔ اس موقعہ پر بدحواسی کے عالم میں راقم کا دل دھکڑ پکڑ کرنے لگا۔
محترم! چشمِ تصور میں اُس عمر رسیدہ خاتون کو لے آئیں، جو ساٹھ پینسٹھ کے پیٹے میں ہو، جس کی نظر کمزور ہو، جسے مختلف عوارض لاحق ہوں اور جسے اُٹھنے اور چلنے کے لیے بھی کسی سہارے کی ضرورت ہو۔ یکم دسمبر 2019ء کو آدھی رات کو اُٹھنے والے ذکر شدہ طوفانِ بدتمیزی میں اُس عمر رسیدہ خاتون کی کیا حالت ہوئی ہوگی……! آپ شاید محسوس نہ کرسکیں، مگر مجھ جیسے کئی بے بس اُس صبح لہو کے گھونٹ پی کر رہ چکے ہیں۔ ذکر شدہ بڑھیا کوئی اور نہیں راقم کی اپنی ماں ہے، جنہیں راقم نے آدھی رات کو سینے سے لگائے رکھا۔ اس کے ایک کان کو سینے سے لگائے جب کہ دوسرے کو ہاتھ سے دبائے رکھا کہ دھماکوں اور پٹاخوں کی آواز اُسے ماضی کی تلخ وادی میں اتارا کرتی ہے۔ وہ ماضی جب ’’مملکتِ خداداد‘‘ کو بچانے کی خاطر ہم اہلِ سوات کو قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ وہ ماضی جو کئی بچوں کو یتیم، کئی خواتین کو بیوہ بنا گیا ہے اور کئی والدین سے اولاد کی نعمت چھین چکا ہے۔ وہ ماضی جس کا حساب ابھی باقی ہے۔ بقولِ شاعر
وخت بہ رازی چی غاخ د زہرو بہ خامار نہ لری
منصور بہ گرزی مستانہ ملا بہ دار نہ لری
محترم! اُس رات ہر گھر میں میری بوڑھی ماں کی طرح کسی کی علیل ماں، کسی کا لاغر و نحیف والد یا معصوم بہن بھائی ہوتے ہوں گے، اور وہ بھی میری طرح لہو کے گھونٹ پی کر رہ چکے ہوں گے۔
محترم! یہ بحیثیت اس قوم کے خادم کے آپ کی اور آپ کے حضرتِ ڈی پی اُو صاحب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ ہمارا، ہمارے بوڑھے والدین اور معصوم بچوں کے آرام کا خیال رکھیں۔ اگر نہیں رکھ سکتے، تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی سے بھرنے والے خزانے سے تگڑی تنخواہیں مع مراعات ڈکارا کریں، پروٹوکول کے نام پر سائرن بجاتی سماعت خراش گاڑیوں میں ٹریفک رولز کی دھجیاں اُڑاتے پھریں اور اپنی افسری کا رُعب ہم پر جمایا کریں۔ اولاً آپ کو اور حضرتِ ڈی پی اُو صاحب کو اخلاقی طور پر مینگورہ شہر کے باسیوں سے معافی مانگنی چاہیے، ثانیاً کسی کو بھی آدھی رات کو اپنی ’’خوشیاں‘‘ دوبالا کرنے کی خاطر شہر کی ڈھائی لاکھ آبادی کے آرام و سکون میں خلل ڈالنے کے لیے آتش بازی کے نام پر طوفانِ بدتمیزی برپا کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ شاید آپ اور حضرتِ ڈی پی اُو ’’صاحب‘‘ کے گھر میں کوئی بیمارنہیں ہوگا، ورنہ آپ صاحبان اس درد کو ضرور محسوس کرتے۔
محترم! ہماری زندگی تماشوں سے عبارت ہے۔ ایک تماشا یہاں طالب و مطلوب کی شکل میں کھیلا گیا۔ ہمیں ذہنی بیمار بنایا گیا۔ اب ’’شادی خانہ آبادی‘‘ کے نام پر آدھی رات کو آپ صاحبان کے منظورِ نظر لوگ رہی سہی کسر پورا کر رہے ہیں۔ بقولِ افتخار عارف
بکھر جائیں گے ہم کیا جب تماشا ختم ہوگا
مرے معبود آخر کب تماشا ختم ہوگا
چراغ حجرۂ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہوگا
کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا
زمیں جب عدل سے بھر جائے گی نور علیٰ نور
بنام مسلک و مذہب تماشا ختم ہوگا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہوگا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
دلِ نامطمئن ایسا بھی کیا مایوس رہنا
جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا
محترم! اُمید ہے کہ آج کے بعد آپ صاحبان (حضرتِ ڈی پی اُو صاحب بطورِ خاص) آدھی رات کو آتش بازی کے نام پر ہم اہلِ مینگورہ کا سکون برباد کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، کہ آپ کا کام عوام کی زندگی میں آرام و سکون لانا ہے، نہ کہ اپنے ’’منظورِ نظر‘‘ لوگوں کا جی بہلانا۔
والسلام!

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔