تحریر: قیصر نذیر خاور 
فلم کا میڈیم وجود میں آنے کے بعد عالمی ادب کے بہت سے ڈرامے فلموں میں ڈھالے گئے لیکن ولیم شیکسپیئر (26 اپریل 1564ء تا 23 اپریل 1616ء) غالباً وہ واحد ڈراما نگار ہے جس کے ڈرامے سب سے زیادہ فلموں کی زینت بنے۔
اِدھر فلم کا میڈیم شروع ہوا۔ اُدھر 1894ء میں برطانوی ’’ولیم کینیڈی۔لوری ڈِکسن‘‘ اور تین امریکی ’’ہرمن چیسلر‘‘، ’’ہیری ماروِن‘‘ اور ’’ایلیس کوپمین‘‘ نے مل کر ’’کے ایم سی ڈی‘‘ سنڈیکیٹ بنایا اور فلم سازی کا آغاز کیا۔ اس سنڈیکیٹ نے 1895ء میں امریکن میوٹو سکوپ کمپنی کی شکل اختیار کی اور بعد میں ’’امریکن میوٹو سکوپ اینڈ بایوگراف کمپنی‘‘ کہلائی۔
اس کی برطانوی شاخ نے ولیم شیکسپیئر کا تاریخی ڈراما ’’کنگ جون‘‘ پہلی بار سلولائیڈ پر منتقل کیا۔ اس کے ہدایت کار ’’ہربرٹ بیئربوم ٹری‘‘ تھے اور اس کا مرکزی کردار بھی انہوں نے خود ادا کیا تھا۔ تب سے اب تک شیکسپیئر کے ڈرامے فلمائے جاتے رہے ہیں۔ پہلے تو اس کے چیدہ چیدہ ڈرامے ہی فلمی شکل اختیار کر پائے…… لیکن ٹیلی وِژن کا میڈیم آنے کے بعد اس کے تمام تر ڈرامے کئی ٹیلی وِژن نیٹ ورک والوں نے فلما لیے جن میں ’’بی بی سی نیٹ ورک‘‘ کے فلمائے شیکسپیئر کے ڈرامے اہم ترین مانے جاتے ہیں۔
ہنری پنجم، رچرڈ سوم، ٹیمنگ آف دی شریو، مرچنٹ آف وینس، جولیس سیزر، انتھونی اینڈ قلو پطرہ، میکبتھ، اوتھیلو، ہملٹ، رومیو اینڈ جولیٹ اور دیگر کئی سلور سکرین پر پیش کیے جاچکے ہیں اور ان میں کئی ایسے ہیں جو ایک سے زیادہ بار فلموں میں ڈھالے گئے۔
’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ غالباً شیکسپیئر کا وہ ڈراما ہے جو سب سے زیادہ بار سلور سکرین اور ٹی وی سکرین کی زینت بنا۔ فلم کی تاریخ کے محققوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈراما پہلی بار فرانسیسی ایلویژنسٹ (Illusionist) اور فلم میکر ’’جارجس ملیز‘‘ (Georges Mlis) نے فلم کے لیے استعمال کیا تھا…… جس سے متاثر ہو کر ’’تھامس ایڈیسن‘‘ کی فلم کمپنی نے بھی اس پر ایک فلم بنائی تھی۔ یہ دونوں فلمیں یا ان کے نیگٹیو اب موجود نہیں۔ البتہ امریکہ کے ’’ونٹاگراف سٹوڈیو‘‘، جسے 1925ء میں ’’وارنر برادرز‘‘ نے خرید لیا تھا، کی 1908ء میں بنائی دس منٹ کی ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ کا پرنٹ محفوظ ہے۔ اس فلم میں جولیٹ کا کردار ’’فلورنس لارنس‘‘ نے ادا کیا تھا…… جب کہ ’’پال پینزر‘‘ رومیو بنا تھا۔
کینیڈین-امریکن ’’فلورنس لارنس‘‘ فلمی دنیا کی پہلی ہیروئن اور فلمی ستارہ کہلائی جاتی ہے جسے خاموش فلموں کے زمانے میں ’’بایوگراف گرل‘‘ اور ’’ہزار چہروں والی لڑکی‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ اس نے 1938ء میں 48 برس کی عمر میں خودکشی کرلی تھی۔ ’’پال پینزر‘‘ جرمن-امریکن اداکار تھا جس نے خاموش فلموں کے زمانے کے بعد بھی فلموں میں اداکاری جاری رکھی تھی اور ’’کاسا بلانکا (1942ء)‘‘ جیسی فلموں میں کام کیا تھا۔ وہ 1958ء میں انتقال کرگیا۔
امریکہ میں 1908ء کا سال شیکسپیئر کے ڈراموں کے لیے اہم رہا۔ کیوں کہ اس برس ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ کے علاوہ اس کے ڈرامے ٹیمنگ آف دی شریو، رچرڈ سوم، جولیس سیزر، انتھونی اینڈ قلو پطرہ اور میکبتھ بھی امریکہ میں پہلی بار فلمائے گئے تھے اور ان سب میں بھی ’’فلورنس لارنس‘‘ نے مرکزی کردار نبھائے تھے۔
1911ء میں اطالوی فلم میکر ’’لو سیویو‘‘ (Gerolamo Lo Savio) نے ’’فلم ڈی آرٹ اطالیہ‘‘ کے لیے ’’ویرونا‘‘ شہر میں اپنی فلم ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ کی شوٹنگ کی۔
1916ء میں امریکہ کی دو اہم فلمساز کمپنیوں میٹرو پکچرز (موجودہ میٹرو گولڈن میئر) اور فوکس فلم کارپوریشن (موجودہ ٹوینٹیت سینچری فوکس فلم کارپوریشن) نے ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ کو فلمایا۔ میٹرو کے ڈائریکٹر جان ڈبلیو نوبل نے اس وقت کے مشہور اداکار فرانسس ایکس بش مین اور اداکارہ بیورلی بینی کو فلم کے لیے کاسٹ کیا جب کہ فوکس فلم کارپوریشن کے ہدایت کار جے گورڈن ایڈورڈز نے ہیری ہیلارڈ کے ساتھ اس وقت کی مشہور اداکارہ تھیڈا بارہ کو رومیو اور جولیٹ کے رول دیے۔ دونوں فلموں نے شیکسپیئر کے ڈرامے کی وجہ سے کم لیکن آپسی مقابلے اور فلمانے کی تکنیک چرانے کی الزام تراشی کی وجہ سے زیادہ نام کمایا۔
1929ء میں میٹرو گولڈن میئر نے اپنی فلم ’’ہالی وڈ ریویو آف 1929ء‘‘ پیش کی جو ایک مزاحیہ میوزیکل فلم تھی۔ اس میں رومیو اور جولیٹ ڈرامے کا بالکنی والا سین بھی شامل کیا گیا تھا جو ’’جان گِلبرٹ‘‘ اور ’’نورما شرئیر‘‘ پر فلمایا گیا تھا۔ ’’نورما شرئیر‘‘ کی اس فلم میں یہ اداکاری اس کے کام آئی اور وہ اس ’’رومیو اور جولیٹ‘‘ کی ہیروئن منتخب ہوئی جو ہدایت کار ’’جارج کوکر‘‘ نے بنائی تھی اور یہ 1936ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ’’لیسلی ہورڈ‘‘ نے رومیو کا کردار ادا کیا تھا۔ جارج کوکر نے 125 منٹ کی اس فلم پر پروڈیوسر کا پیسا کھل کر خرچ کروایا تھا اور یہ اس وقت 20 لاکھ ڈالرز سے زاید سرمایے سے تیار ہوئی تھی لیکن پروڈکشن اور ایکٹنگ کے حوالے سے یہ فلمی دنیا میں اب بھی اپنا مقام رکھتی ہے۔
1937ء میں پولینڈ کے فلم میکروں نے بھی اسے سلورسکرین پر پیش کیا۔ سوئس، فرانسیسی اور چیک بھی پیچھے نہ رہے اور انہوں نے بالترتیب 1941ء، 1949ء اور 1960ء میں اسے فلمایا۔
1950ء کی دہائی شروع ہوئی، تو اطالوی ہدایت کار ’’رینیٹو کاسٹیلانی‘‘ (Renato Castellani) کو خیال آیا کہ ’’رومیو اور جولیٹ‘‘ کو نئے سرے سے فلمایا جائے۔ اس نے 26 سالہ ’’لارنس ہاروے‘‘ کو بطورِ رومیو لیا۔ ’’سوسن شیلٹن‘‘ کو جولیٹ بنایا اور فلم بنا ڈالی۔ اس نے وینس فلم فیسٹیول میں ’’گولڈن لائن ایوارڈ‘‘ تو جیتا، فلم کے ڈائریکٹر کی بھی تعریف ہوئی لیکن فلمی نقادوں کو فلم کچھ زیادہ پسند نہ آئی جس کی بنیادی وجہ وہ ندرت تھی جو اس نے فلم میں ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ترقی پسندانہ خیالات رکھنے والے ’’رینیٹو کاسٹیلانی‘‘ نے اپنی فلم کو ’’کچھ الگ سی‘‘ بنانے کی کوشش میں ’’ویرونا‘‘ کے طبقاتی ماحول اور خاندانی عداوت کو کچھ زیادہ ابھار کر دکھایا جس میں رومیو اینڈ جولیٹ کا وہ رومان دب کر رہ گیا جو اس ڈرامے کا خاصا ہے اور یہی بات نقادوں کو پسند نہیں آئی تھی۔
1960ء کی دہائی کے لگ بھگ یورپ میں امریکی کلچر کی بھرمار کے خلاف ردِ عمل میں جو لہر اٹھی اس میں برطانوی اداکار، ڈراما نگار اور ہدایت کار ’’پیٹر استینوف‘‘ (Peter Ustinov) اور اطالوی ہدایت کار ’’فرانکو ظفریلیلی‘‘ (Franco Zeffirelli) بھی پیچھے نہ رہے۔ پیٹر استینوف نے شیکسپیئر کے اس ڈرامے کو سامنے رکھ کر اپنا ایک ڈراما ’’رومانوف اور جولیٹ‘‘ (Romanoff and Juliet) تخلیق کیا جو امریکہ-سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ پر ایک عمدہ طنز تھی۔ اس نے اسے 1961ء میں فلم کی شکل میں بھی پیش کیا۔
1961ء میں بنی امریکی میوزیکل فلم ’’ویسٹ سائیڈ سٹوری‘‘ (West Side Story) بھی اسی ڈرامے سے ماخوذ تھی۔ یہ اس سٹیج شو پر بنائی گئی تھی جو 1957ء میں لکھا اور پیش کیا گیا تھا۔
ظفریلیلی نے ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ بنانے کے لیے برطانوی نوجوان اداکاروں کو اپنی فلم کے لیے منتخب کیا۔ ظفریلیلی جب یہ سب کر رہا تھا، تو بیٹلز اور رولنگ سٹون جیسے کئی گروپ امریکہ میں اپنی دھاک بٹھا چکے تھے۔ یہ ویت نام جنگ کا زمانہ بھی تھا اور یورپ اور امریکہ کے تقافتی حلقوں میں امریکی حکومت کی ویت نام میں جنگی پالیسی کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی تھی۔ اس کی فلم کا رومیو 17 سالہ ’’لیونارڈ وائٹنگ‘‘ (Leonard Whiting) تھا جب کہ جولیٹ 15 سالہ ’’اولیویا ہسیے‘‘ (Olivia Hussey) تھی۔ ظفریلیلی نے ان کے علاوہ اور بہت سے نوجوان اس فلم میں لیے تھے۔ ظفریلیلی کی یہ فلم جب 1968ء میں نمائش کے لیے پیش ہوئی، تو نقادوں نے اسے ’’رینیٹو کاسٹیلانی‘‘ کی بنائی فلم کے مقابلے میں کئی لحاظ سے بہتر قرار دیا۔ حالاں کہ اس نے بھی شیکسپیئر کے ڈرامے کا نصف سے بھی کم حصہ فلم میں برتا تھا، لیکن اس نے اُس رومان کو فلم میں گم ہونے نہیں دیا جو ڈرامے میں موجود ہے…… بلکہ ظفریلیلی نے اسے زیادہ ابھار کر فلم میں پیش کیا۔ اس فلم کا ٹائٹل میوزک اور تھیم سونگ جسے ’’نینا روٹا‘‘ (Nino Rota) نے کمپوز کیا تھا، آج بھی موسیقی کے شیدائیوں میں مشہور ہے۔ یہ فلم ’’ہم بستری‘‘ کے اس سین کی وجہ سے متنازع بھی بنی جو رومیو اور جولیٹ کے حوالے سے فلم میں شامل کیا گیا تھا۔
1992ء میں روس کے فلم سٹوڈیو ’’سیوز ملٹی فلمز‘‘ نے شیکسپیئر کے اس ڈرامے کی "Animated” ورژن بنائی…… جو 25 منٹ کی تھی۔ ’’سیوز ملٹی فلمز‘‘ نے شیکسپیئر کے دیگر ڈراموں کے ساتھ بھی ایسا کیا تھا۔ یہ اختصار اور ’’اینی میٹیڈ ورژنز‘‘ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھی گئیں۔
1995ء میں امریکی ٹیلی وِژن نیٹ ورک ’’پی بی ایس‘‘ نے اسے ’’روزی، اوہو! روزی اوہو!‘‘ کے نام سے بنایا۔ یہ اس کی سیریز ’’وش بون‘‘ کی چوتھی قسط کے طور پر پیش ہوئی تھی۔
1996ء میں شیکسپیئر کے اس ڈرامے کی ایک اور فلمی شکل ’’رومیو+جولیٹ‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔ اسے آسٹریلوی ہدایت کار ’’باز لوہرمان‘‘ (Baz Luhrmann) نے بنایا تھا۔ اس نے اس میں ’’لیونارڈو ڈی کیپریو‘‘ اور ’’کلیئر ڈین‘‘ کو کاسٹ کیا تھا اور رومیو اور جولیٹ کو نشاۃِثانیہ کے ’’ویرونا‘‘ سے نکال کر آج کے ’’ویرونا‘‘ میں لے آیا تھا۔ مونٹیگو اور کیپولیٹ خاندان دو مافیا گروپس میں اور تلواریں پستولوں میں بدل دی تھیں۔ اس نے شیکسپیئر کے دیے کرداروں کے کئی نام بھی بدل ڈالے۔ باز لوہرمان کا کہنا تھا کہ اس نے یہ فلم اس نسل کے لیے بنائی ہے جو آج کے زمانے میں رہتی ہے۔ اسے وہ ’’ایم ٹی وی نسل‘‘ (MTV Generation) کا نام دیتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر شیکسپیئر اِس زمانے میں زندہ ہوتا، تو وہ اسی طرح کا ڈراما لکھتا۔ شیکسپیئر کے مداحوں نے تو اس فلم کو مسترد کیا…… لیکن ’’ایم ٹی وی نسل‘‘ نے اسے خوب پسند کیا اور یہ باکس آفس پر ڈیڑھ سو ملین ڈالرز کما کر لائی۔
شیکسپیئر کے اس ڈرامے کا جادو اب تک برقرار ہے…… جس کی تازہ مثال وہ برطانوی فلم ہے جو اس کے اصلی نام سے ہی ’’کارلو کارلئی‘‘ نے 2013ء میں بنائی ہے۔ اس نے ڈرامے کے پلاٹ کو تو استعمال کیا ہے…… لیکن شیکسپیئر کے مکالموں کو استعمال کرنے سے گریز کیا ہے اور ’’جولین فیلیوز‘‘ کے لکھے مکالمے برتے ہیں…… جس کی وجہ سے یہ فلم نہ تو نقادوں نے پسند کی اور شائقین نے بھی اسے کچھ بہتر نہ جانا اور اسے درمیانے درجے کی ماخوذ فلم قرار دیا۔
ویسے تو ہند، سندھ میں رومیو اور جولیٹ جیسی کئی لوک داستانیں ہیں لیکن پھر بھی شیکسپیئر کے اس ڈرامے کا اثر یہاں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس کی کئی مثالوں میں سے ہدایت کار اختر حسین کی ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘ (1947ء)، ہدایت کار منصور خان کی ’’قیامت سے قیامت تک‘‘ (1988ء) جس میں عامر خان اور جوہی چاولہ ہیں…… اور سنجے لیلا بنسالی کی ’’گلیوں کے رَسلیلا: رام لیلا‘‘ (2013ء) جس میں رنبیر سنگھ اور دیپکا پدکون نے کام کیا ہے، اہم ہیں ۔
شیکسپیئر کے اس ڈرامے سے ماخوذ فلموں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کا ذکر کرنا یہاں مشکل ہے۔ صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی فلمیں بنیں اور بن رہی ہیں…… وہاں شیکسپیئر کا یہ ڈراما (رومیو اینڈ جولیٹ) کسی نہ کسی شکل میں فلم کی شکل اختیار کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔