ہم شائد دنیا کی واحد قوم ہیں جو اپنے رویوں میں غیر یقینی صورتحال رکھتے ہیں۔ ہم چاہیں، تو عام سی بات کو اتنی اہمیت سے نواز دیں کہ لوگ حیران رہ جائیں، اور ہم چاہیں تو انتہائی غور طلب مسئلے کو چٹکیوں میں نظر انداز کر دیں۔ یہی رویہ بطورِ قوم شائد ہماری بقا بھی بنا ہوا ہے۔ یا پھر یہ ہماری نفسیات کے ساتھ اس طرح جڑ گیا ہے کہ ہم اس سے نکلنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں، یا نا کر ہی سکتے ہیں۔ دنیا ففتھ جنریشن وار فیئر اپنا رہی ہے۔ اصطلاح کے حوالے سے تو یہ خام خیالی ہی نظر آتی ہے۔ لیکن عملی طور پر کہیں کہیں ہمیں ففتھ جنریشن وار فیئر اس لیے نظرآنا شروع ہو چکی ہے کہ ہم میڈیا میں آئے روز اس حوالے سے ایک سیلاب امڈتا ہوا دیکھتے ہیں۔ اب یہ بلا کیا ہے، اور کیسے یہ کام کر رہی ہے، اس کے فوائد کیا ہیں، اس کے نقصانات ہیں، اس سے کس مخصوص ملک کو زیادہ فائدہ ہو رہا ہے، اور کون اس میں اپنی برتری ثابت کر پا رہا ہے؟ یہ تمام باتیں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آتی جائیں گی۔ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں شائد ان جوابوں کا بذاتِ خود مشاہدہ بھی کر پائیں اور اپنی زندگیوں میں ان جوابوں کو عملی سطح پر نافذ ہوتا دیکھ بھی سکیں۔
میڈیا انڈسٹری ہر گذرتے دن کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے، اور پوری دنیا اس صنعت میں اپنے فائدے کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ کرونا وائرس نے دنیا کو لپیٹ میں لیا۔ ہالی ووڈ اس سے ملتے جلتے موضوع پہ فلم سالوں پہلے بنا چکا تھا۔ وجوہات کیا تھیں؟ کہانی کا مرکزی خیال کہاں سے آیا؟ ہنوز خاموشی۔ اسی طرح باقی دنیا میں بھی میڈیا کو سنجیدہ طور پر ایک پراپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ ایجنڈا سیٹنگ تھیوری کے تحت لوگوں کے اذہان و قلوب میں اپنی مرضی کاشت کی جانے لگی ہے۔ اس حوالے سے تمام تر کوششیں خاموشی اور نہایت غیر محسوس طریقے سے ہو رہی ہیں۔ ہم ان کوششوں کو دیکھ نہیں پاتے، محسوس نہیں کر پاتے۔ لیکن ان کے نتائج جلد یا بدیر ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
’’ارطغرل غازی‘‘ نے ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔ اچھا ہے۔ اسلامی تاریخ دکھائی جا رہی ہے۔ بہت اچھا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کا جاہ و جلال دکھایا جا رہا ہے۔ یہ بھی بہت اچھا ہے۔ ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ اس کی ثقافت سے روشناس کروایا جا رہا ہے، یہ بھی بہت اچھا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہم ’’ارطغرل غازی‘‘ ڈرامے سے محبت میں نہ جانے کس حد تک چلے گئے ہیں کہ ملکی سطح پہ شان شاہد جیسا کوئی اداکار اگر لب کشائی کرتا ہے، تو ہم اس کو تختۂ مشق بنا لیتے ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی جیسا کوئی لکھاری بولتا ہے، تو ہم اس کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم کیوں ’’میڈیا ہِٹ‘‘ کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں؟ وہ کہتے کیا ہیں، ان کی بات کا مقصد کیا ہے، ثقافتی تبادلے کے طور پہ اگر ہم ’’ارطغرل غازی‘‘ چلا رہے ہیں، تو ترکی میں کون سی پاکستانی ثقافت کو ان کے قومی چینل پہ جگہ دی گئی ہے؟ اگر دی گئی ہے، تو عوام کو بتائیے۔ ریٹنگ حاصل کرلی، فالوورز بھی ریکارڈ بڑھ گئے، پیسا بھی آگیا، لیکن فائدہ کیا ہوا اس سب کا؟ مانا کہ اس ڈراما نے پوری دنیا کو سحر میں جکڑا۔ کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑے، لیکن اس سے پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کو جو فوائد ہوئے، ان میں سے صرف پانچ گنوا دیجیے۔ پاکستانی ڈراما کو اس سے کیا فائدہ ہوا، اس کا جواب تلاش کر دیجیے۔ پاکستان فنکار جو پہلے ہی کسمپرسی میں جان سے جانے کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں، ان کی کیا بہتری ہوئی؟ پاکستانی میں پروڈکشن کا شعبہ کیا اس ڈرامے کی کامیابی سے بہتر ہو پایا؟ اگر ان تمام سوالوں کے جوابات نفی میں ہیں، تو کیا واقعی ’’ارطغرل غازی‘‘ کو ہمیں ڈرامے سے بڑھ کے سمجھنا چاہیے؟
بنیادی غور طلب نقطہ یہ ہے کہ ڈراما تخیل، لفاظی، کردار نگاری، مکالموں اور کسی حد تک حقیقت پہ مبنی ایک ایسی تفریح ہوتا ہے جس سے اصلاح کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم نے اس ڈرامے کو ڈرامے سے زیادہ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ یقینی طور پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں پر راج کرتی رہی ہے، لیکن اس ڈرامے کی حد تک دیکھیں، تو یہ کافی حد تک موجودہ دور کی ٹیکنالوجی اور مکالماتی دنیا کا شاہکار ہے۔ حقیقت سے اس کا واسطہ اس لیے بہت کم ہے کہ نہ تو سلیمان شاہ جو ارطغرل غازی کے والد ہیں، ان کے حوالے سے زیادہ معلومات دستیاب ہیں، نا ہی خود ارطغرل غازی یا ان کے فرزند عثمان اول (جو سلطنت عثمانیہ کے بانی سمجھے جاتے ہیں) کے حوالے سے کوئی زیادہ معلومات تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔ آپ اس دنیائے معلومات کو کھنگالیں، تو وہاں یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ ارطغرل غازی کے حوالے سے اس سے زیادہ معلومات کم ہی دستیاب ہیں کہ وہ عثمان اول کے والد تھے۔ اس حوالے سے ترک روایات میں تو ہمیں بہت کچھ ملے گا، لیکن تحریری سند کم ہوگی۔ تو یقینی طور پر اس وقت موجودہ دور میں بنائے گئے ڈرامے میں معلومات جو دی گئی ہیں، زیادہ تر فکشن ہیں، اور فکشن کو ڈرامائی شکل دی جائے، تو اس حقیقت کو مدِنظر رکھا جاتا ہے کہ آج کا ناظر کیا دیکھنا پسند کرتا ہے؟ کائی قبیلہ ہو یا سلیمان شاہ، ارطغرل غازی ہو، یا محلاتی سازشوں کا انبار، زیادہ تر مکالمے لفظوں کا گھماؤ پھیراؤ ہیں۔ حقیقت سے ان کا تعلق ثابت کرنے کے لیے جذباتیت کی عینک اتارنا ہوگی، اور سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی ڈراما ارطغرل غازی پاکستان کی ڈراما انڈسٹری کے لیے بھی بہتر ہوگا؟
عثمان اول سلطنتِ عثمانیہ کے معمار ہیں۔ اور سلطنتِ عثمانیہ تمام مسلمانوں کے لیے اہم رہی، لیکن اس ڈرامے کے حوالے سے دیکھا جائے، تو یہ مکمل طور پر فکشن سے قریب ہے۔ حقیقت کا تڑکا بہرحال موجود ہے، لیکن فکشن حاوی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہم اس ڈرامے کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اس حقیقت سے کیوں آنکھیں چرا رہے ہیں کہ ترک ثقافت جتنی بھی اہم ہو، اس سے کیا ہم پاکستانی ڈراما انڈسٹری کو تباہ تو نہیں کر رہے؟
وزیرِ اعظم پاکستان نے سرکاری طور پر جب اس ڈرامے کو دکھائے جانے کا اعلان کر ڈالا، تو کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا کوئی تاریخی اہمیت کا کردار نہیں جس کی تشہیر کی جاسکے؟ آخری چٹان ڈراما کیا پاکستان میں نہیں بنا؟ فلم زرقا کیا پاکستان میں نہیں بنی؟ ٹیپو سلطان کو پکچرائز نہیں کیا گیا؟ دور مت جائیے، اگر 1857ء ہی کو معیار بنالیں، تو اس کے بعد کے اتنے ہیروز موجود ہیں کہ ڈراما بنانا شروع کریں، تو سالوں کردار ختم نہیں ہوں گے۔ آپ کیوں محمد علی جناح پہ ایسا ڈراما نہیں بناتے کہ وہ پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑلے۔ جو کوششیں ہوئیں بھی، وہ بھی ناقص پروڈکشن کا شکار ہوئیں۔
پہلے سے زوال پذیر ڈرامہ انڈسٹری کو اپنے ہاتھوں سے کیوں مار رہے ہیں؟ شان شاہد نے جو بھی کہا وہ بھی اپنی ڈراما انڈسٹری اور فلم انڈسٹری کی بہتری ہی کے لیے کہا۔ اس پہ لٹھ لے کے ان کے پیچھے لگ پڑنے کے بجائے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے امپورٹ شدہ ڈرامے عوام پہ مسلط کرنے کے بجائے اپنی ڈراما انڈسٹری کو سہولیات دیجیے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔