آج کی نشست میں بات ہوگی ڈاکٹر مہاتیر کے بارے میں۔ اگر ہم ماضی میں جاکر دیکھیں، تو یہ وہی مہاتیر ہے جس نے ملک کے وزیر اعظم کے طور پر اپنے آخری خطاب میں کہا تھا کہ "مَیں اب بوڑھا ہوچکا ہوں۔ اس ملک کو نوجوان قیادت کی ضرورت ہے، تاکہ وہ نئے دور کی نئی سوچ کے ساتھ اس ملک کی بے لوث خدمت کرسکے۔” اس اعلان پر ملائیشیا کے عوام غم سے نڈھال ہوئے۔ ہوتے بھی کیوں نہ، ملائیشیا کو ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل کرنے اور خاص کر "ملائی مسلم” کو تعلیم اور کاروباری میدان کی طرف راغب کرنے کا سہرا بھی اسی شخصیت کے سر جاتا ہے۔ مہاتیر کو منانے کے لیے پورے ملائیشیا میں عوام کی ریلیوں کی ریلیاں نکلیں۔ اس امید کے ساتھ کہ وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر اپنا فیصلہ واپس لے لے گا۔ پر اصولوں کا پکا مہاتیر کہاں اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے والا تھا۔
قارئین، ملائیشیا سے میرا تعلق بہت قریب کا ہے۔ جب کراچی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گاؤں گیا، تو سوچا اب کب تک مفت کی روٹیاں توڑتا رہوں گا، کیوں نہ پاکستان میں ہاتھ پیر مارنے کی بجائے یورپ یا دبئی کا رخ کیا جائے؟ وہاں پیسہ بھی زیادہ کمانے کوملے گا اور زندگی میں کچھ نیا تجربہ بھی ہوجائے گا۔ اسی اثنا میرے کچھ دوست ملائیشیا سے آئے۔ا ن کے منھ سے ملائیشیا کی تعریفیں سن سن کر میں نے بھی ٹھان لی کہ اب جانا ہے، تو ملائیشیا ہی جاؤں گا ورنہ کہیں نہیں۔ میں اور میرا ایک دوست راج کمارجس کا تعلق پیر بابا سے ہے، اپنے مستقبل کا سُکھ ڈھونڈنے پانچ ستمبر دو ہزار نو کو ویزہ لگواکر ملائیشیا کے لیے کراچی ائیر پورٹ سے چل پڑے۔ چھے گھنٹے کی طویل ہوائی مسافت طے کرنے کے بعد ہم کوالالمپور ائیرپورٹ پر پہنچے۔ اللہ بھلا کرے گوردیش سنگھ اور جگندر لعل کا، جو پہلے سے ہی ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ائیر پورٹ سے نکلے، تو آس پاس جنگل ہی جنگل اور درمیان میں ان گھنے جنگلوں کا سینہ چھیرتی ہوئی وسیع اور کشادہ سڑکیں دیکھنے کو ملیں۔ صبح کو رِم جِھم رِم جِھم کرتی پھوار نے موسم کو مزید تر وتازہ اور دلکش بنا دیا۔ فضا ایسی صاف ستھری کہ کسی گرد کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ہمارے لیے سب کچھ اجنبی تھا۔ شہر میں داخل ہوئے، تو کیا دیکھتے ہیں کہ صاف ستھرے لباس میں ملبوث لوگ جن کا قد چھوٹا اور چہرے گول مٹول۔ یہ لوگ ہم سے بہت مختلف نظر آئے۔ جو زبان وہ بول رہے تھے، ہم اس کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ بس اتنا تھا کہ ان کی بولی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ آرام کرنے کے بعد ہم نے کوالالمپور کے اندرونی شہر جانے کا ارداہ کیا۔ ہم چاروں شہر کے وسط میں پہنچے، تودیکھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد کھانے پینے میں مصروف تھی اور ہر دوسرا بندہ کچھ نہ کچھ کھا ئے جا رہا تھا۔ تب اندازہ ہوا کہ یہ موٹے اور اتنے گول کیوں ہیں۔ وہاں معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہ گول مٹول مقامی ملائی ہیں اور باقی چائنیز ،ملائیشین وغیرہ ۔ خیر ارد گرد نظر دوڑائی، تو مختلف رنگوں سے مزئین عمارتیں پائیں۔ ہمارے بالکل سامنے دو سلور رنگ کے بڑے ٹاؤر جنہیں پوری دنیا ’’پیٹرونس ٹوینز ٹاؤرز‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ کسی زمانے میں دنیا میں سب سے اونچے ٹاؤرز ہونے کا اعزاز رکھتے تھے۔ ان کو دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے سیاح ملائیشیا کا رُخ کرتے ہیں۔ ان عمارتوں نے شہرکی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہیں۔

’’پیٹرونس ٹوینز ٹاؤرز‘‘ کسی زمانے میں دنیا میں سب سے اونچے ٹاؤرز ہونے کا اعزاز رکھتے تھے۔ (Photo: Fun N Delicious)

قارئین، ملائیشیا میں چار بڑی قومیں رہتی ہیں۔ مسلم ملائی، چائنیز ملائی، انڈین تامل اور سکھ۔ ملائیشیا کی قومی زبان ملائی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ملائیشیا میں ایک بات بڑی عام ہے۔ آپ جدھر بھی جائیں، سب سے پہلے آپ سے یہ پوچھا جائے گا:’’ صوڈا مکن کا‘‘ یعنی آپ نے کھانا کھایا ہے؟ یہ الفاظ صبح چھے بجے سے لے کر رات دوبجے تک سننے کو ملتے ہیں۔
مَیں نے اس بارے ایک ملائی دوست سے پوچھا، تو کہنے لگا ’’سنگھ صاحب، برطانیہ کے ملائیشیا پر قابض ہونے سے پہلے جب جاپانیوں نے پورے ملک کے کو یرغمال بنایا تھا، تو ہماری قوم کی حالت یہ تھی کہ موت کے خوف سے لوگ غاروں اور جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور تھے۔ کھانا نہ ملنے کی وجہ سے حالت یہ تھی کہ کئی بچے، بوڑھے اور جوان مسلسل فاقوں سے اپنی جانیں گنوا چکے تھے۔ جاپانیوں سے آزادی ملی، تو بھوک سے نڈھال لوگ جب غاروں اور جنگل سے نکل آئے اور ایک دوسرے پر نظر پڑی، تو ہر ایک کی زبان پر یہ الفاظ عام تھے کہ ’’ صوڈا مکن کا؟‘‘
13 اگست 1957 ء کو برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد مالے مسلم کی ڈوبتی ساکھ، دن بہ دن مالے مسلم اور ملائیشین چائنیز کے درمیان بڑھتی خلیج کو قریب سے دیکھ کر سنگاپور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر آنے والے ڈاکٹر مہاتیر نے محسوس کیا کہ اپنی ’’مالے قوم‘‘ جو معاشی اور تعلیمی بلکہ ہر لحاظ سے باقی قوموں سے پیچھے تھی، کو آگے لانے کے لیے عملی سیاست میں قدم رکھنا چاہیے۔ڈاکٹر مہاتیر کے دادا کا تعلق پاکستان کے شہر کوہاٹ سے تھا۔ ان کی دادی خالص مالے تھی۔ سیاست میں قدم رکھتے ہی مالے عوام میں ڈاکٹر مہاتیر ممد کو بے پناہ مقبولیت ملی۔
ڈاکٹر مہاتیر 1981ء سے 2003ء تک (یعنی پورے 22 سال) مسلسل ملائیشیا کے وزیر اعظم بنے رہے۔ اس دوران میں انہوں ملائیشیا اور وہاں کے عوام کی تقدیر بدل ڈالی۔آپ نے ملائشیا کو دنیا کے ترقیافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل کردیا اور چاروں قوموں کو ایک قوم یعنی ’’ستو‘‘ ملائیشیا بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملائیشیا معاشی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔

ڈاکٹر مہاتیر 1981ء سے 2003ء تک (یعنی پورے 22 سال) مسلسل ملائیشیا کے وزیر اعظم بنے رہے۔

لیکن دو ہزار تین میں جیسے ہی مہاتیر محمد وزیر اعظم کی کرسی سے اترے، تو اس بڑی کرسی پر عبدوللہ بداوی براجمان ہوئے۔ اس نے جیسے کرپشن کی تمام حدیں پار کر دیں۔ جلد ہی اسے فارغ کرکے ملائیشیا کے دوسرے وزیر اعظم عبدلرزاق حسین کے بیٹے اور چوتھے وزیر اعظم حسین اون کے بھتیجے داتو نجیب رزاق کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ شروع میں تو داتو نجیب رزاق نے بطور وزیر اعظم ملائیشیا کی معاشی صورت حال کو مزید مستحکم بنایا، لیکن دو ہزار سولہ میں داتو نجیب رزاق پر ’’ون ایم بی ڈی‘‘ کرپشن سکینڈل کے الزامات نے اسے ڈبو دیا۔ پورے ملائیشیا میں اس کے خلاف ہنگامے ہوئے اور ریلیاں نکلیں۔ ہر زبان پر یہ نعرہ عام تھا ’’گو نجیب گو۔‘‘ ملائیشیا کی بگڑتی صورتحال کو دیکھ ’’ امنو‘‘ کے رہنماؤں نے ملائیشیا کو ایک بار پھر سے مستحکم اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ڈاکٹر مہاتیر کو بڑی منت سماجت کرکے میدان میں اتارا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ڈاکٹر مہاتیر میدان میں نہ کودتے، تو شائد اپوزیشن رہنما اور کیڈالین رکانیت پارٹی کے سربراہ انور ابراہیم میدان مار لیتے۔
قارئین، یہ بات سچ ہے کہ ملائیشیا میں کبھی شفاف انتخابات ہوئے ہی نہیں۔ خیر، اب دیکھنا یہ ہے کہ بیانوے سالہ یہ معمر شخص ملائیشیا کو ایک بار پھر اسی مقام پر پہنچانے میں کا میاب ہو پائیں گے جس طرح وہ چھوڑ کر گئے تھے، یا نہیں؟
ہماری نیک خواہشات ہمیشہ ملائیشیا اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ساتھ ہیں اور رہیں گی۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔