مملکتِ خداداد پاکستان میں اعلا ترین عہدے دران کی مدت ملازمت میں توسیع ہمیشہ ہی سے سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ چاہے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کی توسیع کا ہو، یا پھر چیف آف آرمی سٹاف کا۔
ماضی میں جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل قمر جاوید باجوہ 3 سالہ توسیع لینے میں کام یاب رہے، مگر جنرل اسلم بیگ اور جنرل راحیل شریف اَن تھک کوششوں کے باوجود توسیع لینے میں ناکام رہے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف خود ہی اپنے آپ کو توسیع دیتے رہے۔ ابھی حال ہی میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوسری توسیع کے ارادوں کا راز بھی ہمارے موجودہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی زبان سے منکشف ہوا۔
تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اسی لیے ہماری سیاسی جماعتیں بھی اعلا ترین عہدے دران کے توسیعی منصوبوں میں بھرپور ساتھ نبھاتی دِکھائی دیتی ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے باجماعت ہوکر جنرل قمر جاوید کے عہدے میں توسیع کے لیے پارلیمنٹ کے اندر متفقہ قانون سازی کروائی تھی۔ غرض اپنی اپنی، مفاد اور نجات دہندہ اپنا اپنا۔
اسی طرح ماضیِ قریب ہی میں اعلا ترین عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع کے لیے تگ و دو کی جاتی رہی ہے۔ جب اکتوبر 2019ء میں تحریکِ انصاف کے ممبرانِ اسمبلی فخرِ امام اور امجد علی خان نے قومی اسمبلی میں بِل پیش کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کی بہ جائے 68 سال کردی جائے۔ چوں کہ اُس وقت کی حکم ران جماعت کے پاس آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت موجود نہیں تھی۔ لہٰذا یہ توسیعی منصوبہ کام یاب نہ ہوپایا۔
یاد رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 179 کے مطابق سپریم کورٹ کے جج بہ شمول چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہے، جب کہ آرٹیکل 195 کے تحت ہائیکورٹ کے جج بہ شمول چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 سال ہے۔ جس طرح ماضیِ قریب میں اعلا ترین عہدے دان کی توسیع کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔ اسی طرح آج بھی صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔
حد تو یہ ہے کہ ابھی سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی توسیع کی باتیں ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ جیسے جیسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 26 اکتوبر قریب آرہی ہے، مملکت میں چہ میگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوچکا ہے۔ بہ ظاہر حکومتی ترجمان وزرا بار بار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی خبروں کو مسترد کررہے ہیں، مگر تجزیہ کاروں کے نزدیک پاکستان مسلم لیگ ن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے میں توسیع کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی دِکھائی دے رہی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ماضی میں تحریکِ انصاف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عمر عطا بندیال کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتی رہی ہے، تو آج مسلم لیگ (ن) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے ایسے خیالات کی حامی دِکھائی دیتی ہے۔ مسل
م لیگ (ن) جو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت کی حامل نہیں، بل کہ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) جیسی بیساکھیوں کے سہارے ریاست پاکستان کے انتظامی اُمور چلانے پر مجبور ہے۔ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توسیعی منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچا پائے گی؟ کیوں کہ آئین کے آرٹیکل 238 اور 239 کے مطابق آئینِ پاکستان میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی ووٹوں سے آئینی ترمیمی بِل کو منظور کروانا لازم ہے۔ بہ ظاہر ایسا ہوتا دِکھائی نہیں دے رہا، مگر یہ پاکستان ہے۔ یہاں کچھ بھی ہونا یا نہ ہونا عین ممکن ہے۔ جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے وقت حکم ران اور حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے بانہوں میں بانہیں ڈال کر سپہ سالار کو توسیع دلوائی تھی۔ آج بھی اگر مقتدر حلقوں نے ارادہ کرلیا، توموجودہ چیف جسٹس کی توسیع میں کسی قسم کی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی اور موجودہ حکم ران و حزبِ اختلاف کی جماعتیں جپھی ڈال کرآئین میں ترامیم منظور کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائیں گی۔
یاد رہے 19 نومبر 2019ء سزا یافتہ نواز شریف علاج کے لیے کوٹ لکھپت جیل سے سیدھا لندن روانہ ہوئے اور 2 جنوری 2020ء پارلیمنٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے لیے قانون سازی ہوئی۔ آج تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سز ا یافتہ قیدی کی حیثیت سے اڈیالہ جیل میں براجمان ہیں۔ مستقبل میں کیا ہوگا یا کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سب میرے سوہنے رب کو معلوم ہے۔ بہ حیثیت سیاست و قانون کے طالب علم، مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ مملکتِ خداداد پاکستان کو اعلا ترین عہدے دران کی مدت ملازمت میں توسیع نے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نوٹیفکیشن 21 جون 2023ء کو جاری ہوا کہ وہ 17 ستمبر 2023ء سے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ عین اس طرح جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹیفکیشن فی الفور جاری ہونا چاہیے، تاکہ مملکت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی توسیع کے حوالے سے چہ میگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو۔ سب سے اہم بات میری رائے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پریس ریلیز جاری کرنی چاہیے کہ وہ کسی قسم کی توسیع لینے کے حق میں نہیں۔ تاکہ توسیع کی آڑ میں مملکتِ پاکستان کسی نئی منصوبہ بندی، ہارس ٹریڈنگ اور نا گہانی تباہی سے محفوظ رہ سکے اور سب سے بڑھ کر کسی فردِ واحد کو توسیع دینے کا سیدھا سادھا مطلب جانشین عہدے دران کی قابلیت پر انگلی اُٹھانے کے مترادف ہے۔
یاد رہے مملکت پاکستان کسی نئی توسیع کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔