وکی پیڈیا کے مطابق اردو کے انقلابی شاعر حبیب جالبؔ 24 مارچ 1928ء میں دسوہہ ضلع ہوشیار پور ’’بھارتی پنجاب‘‘ میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ روزنامہ جنگ اور پھر لائل پور ٹیکسٹائل مل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے۔
ایوب خان اور یحییٰ خان کے دورِآمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالبؔ کو 1960ء کے عشرے میں جیل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے کچھ اشعار لکھے سرِمقتل کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر لیے لیکن انہوں نے لکھنا نہیں چھوڑا۔ جالبؔ نے 1960ء اور 1970ء کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کی جس میں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔
نومبر 1997ء میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی، تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالبؔ کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔
1958ء میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا۔ 1962ء میں اسی ایوبی آمریت نے نام نہاد دستور پیش کیا جس پر جالبؔ نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’’میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا ‘‘ کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا اور اس کے جواب میں ان پر گولیاں برسائیں، اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کر رہا تھا۔اس وقت یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہے رہے تھے :
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1974ء میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسند اقتدار پر پہنچے تھے، اُن سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کر دیا۔اسی دور میں جالبؔ صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لا میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی، تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاء الحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں تو کہا :
’’ظلمت کو ضیا، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا‘‘
آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے، تو جالبؔ صاحب کو کہنا پڑا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وکی پیڈیا کے مطابق آپ کی تخلیقات درجِ ذیل ہیں:
صراط مستقیم، ذکر بہتے خوں کا، گنبدِ بے در، کلیاتِ حبیب جالبؔ، اس شہرِ خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِ دار، احادِ ستم۔
حبیب جالبؔ کو نگار فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ 2006ء سے آپ کے نام سے حبیب جالبؔ امن ایوارڈ کا اجرا کیا گیا۔