وکی پیڈیا کے مطابق 24 جولائی 1986ء کو پاکستانی بیوروکریٹ اور معروف مصنف قدرت اللہ شہاب وفات پاگئے۔
آپ 26 فروری 1917ء کو گلگت (برطانوی ہند) میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم ریاستِ جموں و کشمیر اور موضع چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا۔ 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ ابتدا میں شہاب صاحب نے بہار اور اڑیسہ میں خدمات سر انجام دیں۔ 1943ء میں بنگال میں متعین ہو گئے۔ آزادی کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکریٹری جنرل ہوئے۔ بعد ازاں پہلے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، پھر اسکندر مرزا اور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ پاکستان میں جنرل یحییٰ خان کے بر سر اقتدار آنے کے بعد انہوں نے سول سروس سے استعفا دے دیا اور اقوام متحدہ کے ادارے ’’یونیسکو‘‘ سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ ان کی اس خدمت کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہو گیا، جو اُن کی فلسطینی مسلمانوں کے لیے ایک عظیم خدمت تھی۔’’پاکستان رائٹرز گلڈ‘‘ کی تشکیل انہی کی مساعی سے عمل میں آئی۔ صدر یحییٰ خان کے دور میں وہ ابتلا کا شکار بھی ہوئے اور یہ عرصہ انہوں نے انگلستان کے نواحی علاقوں میں گزارا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہاب صاحب ایک عمدہ نثر نگار اور ادیب تھے۔ ان کی تصانیف میں ’’یاخدا‘‘، ’’نفسانے‘‘، ’’ماں جی‘‘ اور ان کی خود نوشت سوانح حیات ’’شہاب نامہ‘‘ قابل ذکر ہیں۔
آپ اسلام آباد کے سیکٹر H-8 میں آسودۂ خاک ہیں۔