اس منحوس دن سے جب مسلمانوں نے ہندوستان میں قدم رکھا ہے، آج تک ہندو قوم ان کے خلاف بہادری سے جنگ لڑ رہی ہے۔ قومیت کا احساس جاگ رہا ہے۔ ہندوستان ہندوؤں کی سرزمین ہے اور اس میں صرف ہندوؤں کو ہی رہنا چاہیے۔ باقی سب غدار ہیں اور قومی مشن کے دشمن ہیں بلکہ سادہ لفظوں میں احمق ہیں۔ ہندوستان میں دوسری قومیں ہندو قوم کے ماتحت رہنی چاہئیں، بغیر کوئی حق مانگے، کوئی مراعات مانگے، بغیر کوئی ترجیحی برتاؤ مانگے اور بغیر شہری حقوق مانگے۔ اس طرح اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے جرمنی نے یہودیوں سے ملک کو پاک کرکے دنیا کو حیران کر دیا اور قومیت کا فخر وہاں پیدا کر دیا گیا۔ ہندوستان میں ہمارے لیے یہ بڑا اچھا سبق ہے۔
عزیزانِ من، ’’ایم ایس گول والکر‘‘ کی کتاب ’’ہم یا ہماری قومیت کی پہچان‘‘ کی یہ عبارت ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی نظریات بیان کررہی ہے۔ ’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ آر ایس ایس کے قیام کے فوراً بعد برطانوی حکومت نے اسے بین کیا۔ جب کہ 1947ء کے بعد تین مرتبہ بھارتی حکومت نے بھی اس پر پابندی لگائی۔ کیوں کہ یہ تنظیم بھارتی سیکولر آئین کو پامال کر کے بھارت کو خالص ہندو سٹیٹ بنانا چاہتی ہے۔ یہ تنظیم ’’موہن داس کرم چند گاندھی‘‘ کے قتل سے لے کر بابری مسجد اور گجرات فسادات جیسے واقعات میں ملوث رہی ہے۔ اس انتہا پسند تنظیم کی سیاسی شاخ بی جے پی ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ نے 1984ء میں مشکل سے دو نشستیں حاصل کیں، بعد میں تعداد بڑھتے بڑھتے 2014ء میں 282 نشستوں تک پہنچ گئی۔ یوں 39 برس کے بعد انہیں مرکز میں اکثریت ملی، جس کے سربراہ ’’نریندر مودی‘‘ ہیں۔
وہ مودی جسے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام نے گمنامی سے نکال کر راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور آر ایس ایس کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ پھر یہ ہوا کہ ’’ایل کے ایڈوانی‘‘ جیسے بی جے پی کے لیڈران کی لاکھ مخالفت کے باوجود آر ایس ایس کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ بی جے پی کے ان لیڈروں کا بس نہ چلا اور نریندر مودی وزیراعظم کے لیے بی جے پی کا امیدوار بن گیا۔ اس کے لیے ایسے نعرے ایجاد کیے گئے اور ایسی پالیسی مرتب کی گئی جس کے سہارے وہ کامیاب ہوئے۔ مثلاً سب کا ساتھ، ڈیجیٹل انڈیا، مینی مم گورنمنٹ میکسی مم گورننس، اچھے دن آئیں گے، اور اس جیسے بے شمار وعدوں مثلاً ہر شہری کے کھاتے میں 15 لاکھ جو کالا دھن سے آئے گا ڈال دیا جائے گا، ہر سال دو کروڑ نوکریاں بے روزگاروں کو مہیا کی جائیں گی۔
اس طرح مودی صاحب کبھی خود کو چائے والا، کبھی چوکیدار اور کبھی پردھان سیوک ڈکلیئر کرتا رہا، جس کے سبب عوام گمراہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہ الگ بات ہے کہ مودی کے الیکشن جیتنے کے بعد نہ انڈیا ڈیجیٹل بنا، نہ اچھے دن آئے، نہ دو کروڑ نوکریاں دی گئیں اور نہ کالے دھن سے آئے 15 لاکھ کسی کے کھاتے میں ڈالے گئے۔
عزیزانِ من، اس کے برخلاف ہمارے وزیراعظم نہ تو چائے والے ہیں اور نہ چوکیدار، بلکہ انہوں نے تو برطانیہ کے ’’رائل گرائمر اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ہے اور آکسفورڈ یونیورسٹی ہی کی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہنے کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے تک پاکستان کی قومی ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ 1992ء میں پاکستان کے لیے ورلڈ کپ بھی جیت چکے ہیں۔ نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال جیسے ادارے بناکر پھر بھی یہ سارے ٹائٹلز انہیں وزیر اعظم بننے کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ تقریباً 15 سال تک بے چارے کپتان دن رات چیخ چیخ کر اس کرپٹ سسٹم کے خلاف بولتے رہے، لیکن کسی نے اس کے ڈگری تک کا لحاظ نہ کیا اور ہر کوئی اسے ’’پاگل خان‘‘ کہہ کر پکارتا رہا، لیکن جوں ہی اس ملک کی اصل طاقتوں نے کپتان کو سلطان بنانا چاہا، تو پھر ہوائیں بھی کپتان کے تابع ہوئیں جو تبدیلی کے بادلوں کو اٹھا کر پورے ملک پر چھا گئیں۔ تب پورے ملک میں صرف کپتان نیازی ہی صادق و امین قرار پائے۔ مودی کی طرح کپتان نیازی نے بھی نعرے لگائے اور بڑے بڑے وعدے کیے کہ ہم تبدیلی لائیں گے، ہم نیا پاکستان بنائیں گے، ہم ملک سے کرپشن ختم کریں گے، ہم مہنگائی ختم کریں گے، ہم 50 لاکھ گھر بنائیں گے، اور ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ لیکن ہوا کچھ نہیں۔بلین درخت لگائے گئے اور نہ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لاکر’’آئی ایم ایف‘‘ کے منھ پر مارا گیا، بلکہ پورا ملک آئی ایم ایف کی گود میں رکھ دیا گیا۔ سٹیٹ بینک کا گورنر ہو یا وزارتِ خزانہ کا اہم منصب، ہر جگہ آئی ایم ایف کی روحانی اولاد کو لا کر بٹھایا گیا۔ اب وہ اس ملک کے مالک و مختار ہوں گے۔
عزیزانِ من، جب الیکشن کی بجائے سلیکشن ہوتی ہے، تو پھر چائے والا مودی اور آکسفورڈ ڈگری والا نیازی علم میں برابر ہوجاتے ہیں۔ اگر مودی صاحب جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ’’سکندر اعظم‘‘ بہار تک پہنچے، تو بہاریوں نے ان کو مار بھگایا، حالاں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ سکندر اعظم بہار تک کبھی پہنچے ہی نہیں، ان کو تو ہندوستان کے سرحدی علاقے سے اپنے ملک واپس ہونا پڑا تھا، تو کپتان نیازی صاحب بھی اپنے دورۂ ایران میں کہتے ہیں کہ جنگِ عظیم دوم میں جاپان اور جرمنی نے آپس کی سرحد پر مشترکہ انڈسٹری لگائی تھی۔ جب ایک منصب میرٹ کے اوپر نہیں ملتا، تب آکسفورڈ کی ڈگری بھی آپ کی جہالت چھپا نہیں سکتی۔ پھر چائے والا اور ڈگری والا ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ اگر مودی صاحب یہ کہیں کہ تاریخ میں پہلی بار پلاسٹک سرجری ہندوستان میں ہوئی تھی، تو ہمارے کپتان کیوں پیچھے رہتے؟ وہ تو ہر کام تاریخ میں پہلی ہی دفع کرتے ہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ کپتان نے ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے اسٹینڈ لیا، تاریخ میں پہلی مرتبہ کپتان کی ہی حکومت میں اتنی بارشیں ہوئیں، تاریخ میں پہلی مرتبہ کپتان ہی نے جذبۂ خیر سگالی کے تحت انڈین پائلٹ کو چھوڑ دیا۔ یعنی کپتان صاحب جو بھی کرتے ہیں، وہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہوتا ہے۔
عزیزانِ من، پچھلے دنوں افواجِ پاکستان کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ڈی جی صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا والوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے ٹاک شوز اور تجزیوں میں مسائل حل کرنے کے اوپر بات کریں اور اپنا ایکسپرٹ اوپینئن صرف مسائل کو حل کرنے پر صرف کریں۔ مَیں انتہائی ادب کے ساتھ یہ گذارش کرنا چاہوں گا کہ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اس ملک کے مسائل تب تک حل نہیں ہوں گے جب تک عدلیہ سے لے کر میڈیا تک اس ملک کے سبھی ادارے غیر جانب داری کا مظاہرہ نہ کریں، اور اس ملک کے سارے ادارے عوام کو اپنے پسند کے حکمران چننے کے درمیان رکاوٹ نہ بنیں۔ جب عوام اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کریں گے، تواس ملک کے سارے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور محترم ڈی جی صاحب کو اس قسم کی درخواست کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر ادارے اثر انداز ہوتے رہیں گے، تو سلیکٹیڈ چائے والا اور سلیکٹیڈ ڈگری والا ایک ہی طرح سوچیں گے اور ایک ہی طرح پرفامنس دیں گے۔
اور اس ملک کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔

……………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔