پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) مظلوم پختونوں پر مسلط شدہ جنگ سے بے زاری کا اعلان ہے۔ قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے یہ تحریک امن و امان کا پُرزور مطالبہ کرتی ہے۔ ہاتھ اور پاؤں میں بیڑیاں، زبان پر تالا لگا کر مذاکرات کی دعوت دینا کیا بے وقوفانہ حرکت نہیں ہے؟ اس طرح مذاکرات یک طرفہ تو ہوسکتے ہیں، لیکن غیر جانبدرانہ بالکل بھی نہیں۔ دراصل ریاست چاہتی ہے کہ پی ٹی ایم کو زبردستی مذاکرات کے لیے مجبورکیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کراچی کا 13 مئی کا جلسہ پاکستان کی تاریخ کا سنگِ میل ثابت ہوا۔ کیوں کہ دہائیوں سے جار ی برپا ظلم کے خلاف بے بس عوام کا ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف یہ جلسہ چارج شیٹ تصور ہوگیا۔ اب ریاست نیا بیانیہ مرتب کرنے پر مجبور ہوگی۔ جب تک یہ آرٹیکل اخبار میں چھپے گا، تو احتجاج ہو چکا ہوگا اور نئے پُرامن پاکستان کی داغ بیل ڈالنے کے لیے سر جوڑے جا رہے ہوں گے۔ سوات میں پی ٹی ایم کے لیے جلسہ کرنے کی جگہ تبدیل کردی گئی تھی، یہی حربہ کراچی میں بھی کام آیا اور مطلوبہ جگہ تبدیل کی گئی۔ اگر دیکھا جائے، تو عوام کے سمندر کا ان جلسوں میں آنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام اب اپنے حقوق پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہتے۔
حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ جو ادارے دانستہ یا نا دانستہ غلطی کرتے ہیں، ان کو یاد دہانی کرائی جائے، تاکہ وہ اپنی غلطی کو ٹھیک کرنے کی راہ نکالیں۔ نہ کہ ایسا کرنے والے کو غدار اور ایجنٹ کے القابات سے نوازا جائے۔ ریاست، حب الوطنی کا جذبہ زور اور زبردستی سے قطعاً پیدا نہیں کرسکتی۔ محبت کا احساس دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جنم لیتا ہے۔ اگر ریاست بے انصافی اور لاقانونیت سے نہیں رُکتی، تواس صورت ریاست کے ساتھ عوام کی محبت کم ہوجاتی ہے۔
پختون نیشنلسٹوں اور قوم پرست پارٹیوں کی نان ایشوز پر سیاست کی وجہ سے ایک دوسری قوت منظر عام پر آچکی ہے۔ تقریباً تمام قوم پرست پارٹیوں کے عوامی مسائل حل نہ کرنے کی وجہ سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا، وہ پی ٹی ایم کے آتے ہی پورا ہوگیا ہے۔ باقی پارٹیوں کی سیاست، نان ایشوز کی ہے۔ عوام کے دیرینہ مسائل ان کے جان و مال کا تحفظ ہے، ان کی عزت نفس کی بحالی ہے اور امن و امان ہے۔ اس کے بعد صحت، تعلیم اور دیگر ضرویات مترقی ریاستوں کے اہداف ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بلاامتیاز ریاست کے آئینی اور قانونی حقوق نہ دینے کا عمل ایک طرف بے انصافی کے زمرہ میں آتا ہے، تو دوسری طرف دیدہ و دانستہ ریاست دہشت اور دہشت گردی کو پروان چڑھا رہی ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جب لاکھوں لوگ سڑکوں پر احتجاج کرکے ریاست سے اپنے حقوق مانگتے ہیں اور ریاست اس میں مصلحت اور ٹال مٹول سے کام لیتی ہے، اور انجامِ کارحقوق نہیں ملتے، تو لوگ بغاوت پر اُتر آتے ہیں۔
اب تک پی ٹی ایم کے جتنے بھی جلسے ہوئے ہیں، اس میں پی ٹی ایم کے سپورٹرز اور لیڈر شپ کے لیے روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں، لیکن وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے آسانی پیدا کر لیتے ہیں۔ کیوں کہ عوام کودیر تک بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ عوام کو پتا لگ چکا ہے کہ ہمارے اصل مسائل امن و امان اور عزتِ نفس کا خیال ہیں۔ اس طرح چاہے وہ پولیس ہو، رینجرز یا دیگر سیکورٹی ادارے، ان کی بے جا اور بلاجواز سختی کی وجہ سے پی ٹی ایم کے سپورٹرز میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب تویہی بنتا ہے کہ کسی طرح اس تحریک کو بدنام کیا جائے اور یا اس کو مائل بہ تشدد کیا جائے، جو کہ تحریک کا ’’ماٹو‘‘ نہیں ہے۔ یہ تحریک عدم تشدد کے راستے پر گامزن ہے۔

جب لاکھوں لوگ سڑکوں پر احتجاج کرکے ریاست سے اپنے حقوق مانگتے ہیں اور ریاست اس میں مصلحت اور ٹال مٹول سے کام لیتی ہے، اور انجامِ کارحقوق نہیں ملتے، تو لوگ بغاوت پر اُتر آتے ہیں۔ (Photo: Dawn)

حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ جو ادارے غلطی کرتے ہیں، ان کو یاد دہانی کی جاسکے، تاکہ غلطی کو ٹھیک کیا جاسکے، نہ کہ ایسا کرنے والے کو غدار کے القاب سے نوازا جائے۔ ناروا سلوک کی وجہ سے اندازا لگانا مشکل نہیں کہ پختونوں کو ریاستی اداروں کی طرف سے کتنے مسائل کا سامنا ہے۔ دھمکی آمیز طریقے سے پی ٹی ایم کی سرکردہ لیڈر شپ کو اٹھایا جاتا ہے۔ تفتیش کے نام پر ان کو حبسِ بے جا میں رکھا جاتا ہے۔ حالاں کہ جب ریاست خود مانتی ہے کہ پی ٹی ایم کے تمام مطالبات جائز ہیں، تو پھر انہیں ماننے میں کیا امر مانع ہے؟ اس کا اداراک کرنا مشکل نہیں۔ کس طرح پی ٹی ایم کا میڈیائی بلیک آؤٹ کیا گیا؟ کس طرح عام دکانداروں، پرنٹنگ پریس، کنٹینرز وغیرہ کو دھمکیاں دے کر انہیں تعاون نہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ منظور احمد پشتین کو پہلے اسلام آباد ائر پورٹ میں اس کا ریکار ڈنہ ہونے کی وجہ سے ٹکٹ نہیں دیا گیا اور بعد میں لاہور ائر پورٹ پر روکنے کی خاطر ایک گھنٹہ ضائع کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہاں بھی جہاز کا وقت نکل گیا۔ اس تحریک کو سرکاری طور پر کا لعدم قرار دیا گیا ہے اور نہ عدالت نے اس پر کوئی فیصلہ ہی دیا ہے۔ اب جب باضابطہ طور پر یہ کالعدم نہیں ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آئینی اور قانونی آزادی کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں؟ چلنے پھرنے کی آزادی، سروسز کی آزادی، آزادیِ اظہارِ رائے وغیرہ سلب کرنے کا مطلب صاف طور پر یہ نکلتا ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان معاہدہ صرف کاغذات کی حد تک موجو د ہے اور حقیقتاً اس کا وجود کوئی نہیں۔ ہاتھ اور پاؤں میں بیڑیاں اور زبان پر تالا لگا کر مذاکرات کی دعوت دینا کہاں کا انصاف ہے؟ اس کا مطلب زبردستی مذاکرات کے لیے مجبور کرنا ہی ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے اس تحریک میں نئی جان آتی جائے گی اور تحریک کو دوام ملے گا۔
تحریک کے مطالبات کی فہرست فی الحال پانچ نِکاتی ہے، جس میں وزیرستان سے مائنز کی صفائی، نقیب اللہ شہید کی ماورائے عدالت قتل کے مبینہ مجرم راؤ انوار کی پھانسی، لاپتا افراد کی بازیابی، مجرمان پر سول اور کریمنل عدالتوں میں کارروائی کرکے مجرموں کو سزائیں اور بے گناہوں کو چھوڑنا اور ماورائے عدالت قتل عام کا تدارک شامل ہے، لیکن لگتا ہے اس فہرست میں دیگر مطالبات بھی آنے والے ہیں۔
اس تمام تر صورتحال میں سیاسی پارٹیاں برابر کی ذمہ دار ہیں۔انہیں بھی اپنے کیے کی سزا قانونِ فطرت دے گا۔
آج میری کل اس کی باری ہے

………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔