قارئین کرام! مانتے ہیں کہ عظیم مصور ’’پابلو پکاسو‘‘ نے بولنے سے قبل ہی مختلف چیزوں کا خاکہ بنانا سیکھا تھا؟
جی ہاں، پکاسو کے حوالہ سے یہ گراں قدر معلومات اکسفورڈ پبلشرز کی جانب سے شائع شدہ انگریزی کی معلوماتِ عامہ کی کتاب "Book of Facts” کے صفحہ نمبر 128 پر درج ہے۔
آزاد دائرۃ المعارف میں درج شدہ معلوماتِ کے مطابق دورِ جدید کے سب سے بڑے مصور اور تجریدی مصوری (Abstract Art) کے مؤجد پابلو پکاسو (Pablo Picasso) پچیس اکتوبر 1881ء کو مالاگا (اسپین) میں پیدا ہوئے۔ ٹائم میگزین نے 1998ء میں صدی کی سو بڑی شخصیات کا انتخاب کیا، تو ’’پابلو‘‘ کو پہلے نمبر پر قرار دیتے ہوئے لکھا:’’اس سے قبل کوئی آرٹسٹ اس قدر مشہور و معروف نہ ہوسکا جتنا پکاسو ہوا۔‘‘
ایک اور معتبر حوالہ کے مطابق ایک روز پکاسو بازار میں مٹر گشت کر رہے تھے کہ ان کی ایک خاتون سے مڈبھیڑ ہوئی۔ خاتون نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’کیا آپ پکاسو ہیں؟‘‘ پکاسو نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’جی ہاں، آپ کا اندازہ درست ہے۔‘‘ کہتے ہیں کہ خاتون کی اس وقت خوشی کی انتہا نہ تھی۔ اس نے پکاسو سے وہاں کھڑے رہنے کی درخواست کی اور ٹھیک پانچ منٹ بعد ایک سادہ سا کاغذ اور پنسل لے آئی۔ دونوں پکاسو کو دیتے ہوئے کہنے لگی: ’’کیا آپ میرے لیے کچھ ڈرا (Draw) کرسکتے ہیں؟ یہ ایک طرح سے آپ کی یادگار رہے گی میرے پاس۔‘‘ پکاسو نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا: ’’جی ضرور!‘‘ اور کھڑے کھڑے چند منٹوں میں ایک خوبصورت ڈرائنگ اسے تھماتے ہوئے فرمایا: ’’یہ لیں میری طرف سے پانچ لاکھ کے فن پارے کا تحفہ!‘‘ خاتون نے حیرت اور خوشی سے ملی جلی کیفیت میں پکاسو کا شکریہ ادا کیا۔ پکاسو اپنی راہ لیتے ہوئے آگے بڑھے۔ خاتون اُس ڈرائنگ کو ہاتھوں میں لیتے ہوئی کچھ وقت مبہوت سی کھڑی رہی، جیسے ہی اُس کے حواس بحال ہوئے، سامنے ہی ڈرائنگز اور پینٹنگز کی ایک گیلری پر نظر پڑی۔ خاتون لمبے لمبے ڈگ بھرتے گیلری کے اندر گئی، جہاں ایک بوڑھا کاؤنٹر پر کھڑا کچھ فن پاروں کا جائزہ لے رہا تھا۔ خاتون نے ابھی چند لمحے پہلے پکاسو کے ہاتھ کی بظاہر معمولی سی دِکھنے والی ڈرائنگ مذکورہ بوڑھے کو دکھائی۔ بوڑھے نے ڈرائنگ کا بغور جائزہ لیا۔ انگشتِ شہادت سے عینک کی پوزیشن درست کی ۔ جب ہر زاویہ سے جائزہ لینے کے بعد وہ مطمئن ہوا، تو خاتون سے جواباً کہنے لگا: ’’مَیں آپ کو اس فن پارے کی قیمت پانچ لاکھ تک ادا کرسکتا ہوں!‘‘ خاتون کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس نے بوڑھے کے ہاتھ سے فن پارہ لیا اور دوڑتی ہوئی گیلری سے پکاسو کی تلاش میں نکلی۔ کافی دوڑ دھوپ کے بعد جب اُسے پکاسو نہ ملا، تو اُداس ہوئی۔
کہتے ہیں کہ خاتون نے اُس روز سے تہیہ کرلیا کہ ’’پکاسو‘‘ کو ڈھونڈ کر ہی دم لینا ہے۔ جویندہ یا بندہ، ایک دن فن پاروں کی نمائش میں وہی خاتون پکاسو کے ہاتھ کی بنائی ہوئی بظاہر وہ معمولی سی دکھنے والی ڈرائنگ فریم کیے، بغل میں دابے مختلف فن پاروں کا جائزہ لیتے لیتے ایک مرد حضرت سے ٹکرائی، وہ بھی ایک فن پارہ کا جائزہ لینے میں محو تھا۔ جیسے ہی دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں، خاتون کے منھ سے خوشی کے مارے ایک چیخ نکلی۔ مرد حضرت کوئی اور نہیں بلکہ ’’پکاسو‘‘ ہی تھا۔ خاتون نے علیک سلیک کے بعد پوچھا: ’’آپ نے مجھے پہچانا؟‘‘ پکاسو نے بھنویں سکیڑتے ہوئے ذہن پر زور دیا مگر بالآخر نفی میں سر ہلاتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجہ میں خاتون کو نہ پہچاننے کا کہا۔ خاتون نے دفعتاً وہ فریم کی ہوئی ڈرائنگ نکالی اور پوچھا: ’’اب پہچانا؟‘‘ پکاسو نے اُس سادہ سی ڈرائنگ کا جائزہ لیا، اور جواباً کہا: ’’ہاں، یہ وہی پانچ لاکھ والی ڈرائینگ ہے جو آپ کی فرمائش پر مَیں نے آپ کی خوشی کے لیے تیار کی تھی۔‘‘ خاتون نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا پکاسو سے پوچھا: ’’محض چند منٹوں کی بظاہر معمولی سی دِکھنے والی اس ڈرائنگ کی قیمت پانچ لاکھ کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ میرے لیے غیر یقینی ہے۔ گو کہ ایک گیلری والا اس سے بھی زیادہ دینے کو تیار ہوسکتا تھا۔‘‘ پکاسو نے اپنے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا: ’’خاتون، آپ کے لیے یہ چند منٹ ہوں گے، مگر اس مقام تک پہنچنے میں مجھے پورے تیس سال لگے ہیں۔ یہ قیمت اُن چند منٹوں کی نہیں بلکہ گذشتہ تیس سالوں کے تجربے کے نچوڑ کی ہے۔‘‘
قارئین، حاصلِ نشست یہی ہے کہ دنیا میں ڈھونڈے سے بھی ایک ایسی مثال نہیں ملے گی کہ کوئی ہنر مند پلک جھپکتے میں درجۂ کمال تک پہنچا ہو۔ ہم جس فرازؔ کی شاعری پر سن دھنتے رہتے ہیں، انہی کے بقول
وہ تو پتھر پہ بھی گزری نہ خدا ہونے تک
جو سفر مَیں نے نہ ہونے سے کیا ہونے تک
ہمیں چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے اور اپنے ہنر کو کمال تک پہنچانے کے لیے مستقل مزاجی سے کام لیں، اور اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی قسم کا سمجھوتا نہ کریں۔
اس حوالہ سے علامہ محمد اقبال مرحوم کیا خوب فرما گئے ہیں:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگیں ہوا

……………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔