چند دن قبل ضلع شانگلہ کے ایک مقام کروڑہ پولیس سٹیشن میں پولیس تشدد سے ایک ملزم کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ احتجاج ہوا۔ پولیس کے اعلیٰ افسران نے نوٹس لیا۔ ایس ایچ اُو کو گرفتار کرکے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا؟ کیوں کہ اب تو یہ پولیس کا اپنا اندرونی معاملہ ہے۔ آخر ایس ایچ اُو ان کا افسر اور پیٹی بند بھائی ہے۔ اس کے خلاف کارروائی کیوں ہونے لگی؟
مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے قتل کے الزام میں ملوث ایک بڑے پولیس آفیسر کو پولیس سٹیشن کے کمرے میں استراحت فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی چارپائی پر کئی گاؤ تکیے ٹیک لگانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔پو را کمرہ اس کے لیے مختص تھا۔ آرام و راحت کا تمام ساز و سامان کمرے میں موجود تھا۔ خدمت کے لیے پولیس کے سپاہی باربار کمرہ میں آکر دریافت کرتے تھے: ’’ سر کوئی تکلیف تو نہیں!‘‘
کل ایک بار پھر پشاور کے ایک پولیس سٹیشن میں پولیس گردی کا ایک شرمناک واقعہ پیش آیا، جس میں اہل کاروں نے پولیس کو گالیاں دینے کے الزام میں نوجوان کو برہنہ کرکے شرمناک مثال قائم کی۔ اخباری خبر کے مطابق نوجوان اس واقعہ کے بعد دو مرتبہ خود کشی کی کوشش کرچکا ہے۔ اگرچہ ایسے واقعات تھانوں اور پولیس سٹیشنوں میں روزمرہ کا معمول ہیں، لیکن چوں کہ منظر عام پر نہیں آتے، اس وجہ سے نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ لیکن جب سے سوشل میڈیا سامنے آیا ہے۔ ایسے واقعات کا فوراً سوشل میڈیا پر چرچا ہوتا ہے، اور نتیجے میں اور تو کچھ نہیں ہوتا، بس تھوڑے عرصہ یا دنوں کے لیے کچھ ذمہ دار حضرات کو تھوڑی بہت شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے۔ ورنہ پولیس کے لیے یہ واقعات کچھ خاص حیثیت نہیں رکھتے۔ اس سے بد رجہا بڑے واقعات سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کافی سارے لوگوں کو پولیس گردی کے ذریعے بے گناہ شہید کیا گیا ہے۔ اگرچہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور اس کی حکومت کے کرتا دھرتا براہِ راست ملوث تھے، لیکن آج تک شہدائے ماڈل ٹاون کو انصاف نہیں ملا۔ عمران خان اور طاہر القادری صاحب جب اسلام آباد دھرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ حلیف اور دمساز تھے، تو سانحہ ماڈل ٹاون کے شہدا کو انصاف فراہم کرنے کی آوازیں بلند کی جاتی تھی، لیکن آج عمران خان بر سرِ اقتدار ہیں اور علامہ طاہر القادری کینیڈا میں مقیم ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہدا کو انصاف فراہم کرنے کی آوازیں فضا میں تحلیل ہو چکی ہیں اور یہ سانحہ ساہیوال کا حادثہ فاجعہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ یہ تو خود تحریک انصاف کے دور حکومت کا واقعہ ہے، کہ کس طرح پولیس نے بے گناہ میاں بیوی کو اپنے معصوم بچوں کے سامنے گولیاں مار کر قتل کیا۔ آج تک نہ پولیس کے ذمہ دار افراد کو کسی قسم کی سزادی جا سکی، اور نہ ان بے گناہ مقتولوں کی داد رسی ہی ہوئی۔
ویسے تو پاکستان کے تمام محکمے ادارے اور شعبے اپنی کارکردگی کے لحا ظ سے انتہائی ناکام ہیں اور ہر ادارے، محکمے میں رشوت اور سفارش کا کلچر عام ہے، لیکن پولیس کا محکمہ تو اپنی الگ شان اور پہچان رکھتا ہے۔ برصغیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد انگریزوں نے دو تین اہم اور بنیادی ادارے اپنے قبضے کو بر قرار رکھنے اور اپنے خلاف تمام تحریکوں کو کچلنے کے لیے قائم کیے۔ ان میں سب سے اہم ادارہ پولیس کا ہے۔ انگریزوں نے اس ادارے کی بنیاد میں یہ سوچ فکر اور روح ودیعت کی کہ انگریز سرکار کا ہر مخالف قابلِ گردن زدنی ہے۔ وہ کسی رد و رعایت کے قابل نہیں۔ ہر قسم کا بد ترین تشدد اس پر جائز ہے۔ نہ کسی کو شہریت کے حقوق حاصل ہیں اور نہ انسانی جان و مال کو تحفظ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے پولیس کو بے پناہ اختیارات دیے اور ان کے خلاف ہر قسم کے مواخذے اور قانونی حقوق کے دعوے کالعدم قرار دیے۔ حالاں کہ ان کے اپنے ملک برطانیہ میں پولیس کا محکمہ آئین و قانون کا پابند ادارہ تھا، لیکن یہاں چوں کہ معاملہ غلاموں کو قابو کرنے، دبانے اور ہراساں کرنے کا تھا۔ اس وجہ سے انگریزوں کی نظر میں سب سے ظالم، جابر اور سخت گیر پولیس افسر منظورِ نظر ہوتا تھا۔ انگریزوں کا یہ ورثہ غلام کے تمام تر قباحتوں کے ساتھ پاکستان پولیس کو منتقل ہوا۔ اسی کلچر کے مطابق اسی انداز میں محکمۂ پولیس کے افسران اور سپاہیوں کی تعلیم و تربیت کی گئی۔ اس تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ آپ چاہے کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معزز شہری ہوں، آپ عمر کے کسی بھی درجے میں ہوں، آپ بزرگ اور سن رسیدہ ہوں، آپ کے ساتھ معمولی پولیس کے سپاہی اور آفیسر کا رویہ حقارت آمیز اور توہین آمیز ہوگا۔ ان کو یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ سن رسیدہ اور معمر شہری آپ کے والد کے درجے میں ہیں۔ ان کے ساتھ احترام و مروت کے ساتھ پیش آیا جائے، یا یہ پاکستان کے معزز شہری ہیں، ان کے حقوق ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ قانون کے دائرے میں شریفانہ برتاؤ کیا جائے۔ کبھی کبھی کچھ مستثنا شخصیات سے واسطہ پیش آتا ہے، تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ یا رب، اس محکمے میں ایسے شریف، باوقار اور قانون پسند شخصیات بھی موجود ہیں، لیکن ایسے اشخاص کی تعداد بہت کم ہے۔ ایک دفعہ ایک تھانے جانے کا اتفاق ہوا۔ دن کا فی چڑھا ہوا تھا۔ انچارج صاحب ابھی ابھی نیند سے بیدار ہوئے تھے۔ پھر جو ان کے غسل، بالوں کو سنوارنے اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کا جائزہ لینے کا عمل شروع ہوا، تو انتظار کی گھڑیاں طویل سے طویل تر ہو گئیں۔ بڑی مشکل اور طویل انتظار کے بعد صاحب بہادر نوک پلک سنوار کر فارغ ہوئے، تو نہایت نا گواری سے فرمایا، کیا بات ہے؟ جب مَیں نے واقعہ عرض کیا، تو سر سری انداز میں فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ رپورٹ روزنامچے میں درج کریں گے۔ جب اصرار کیا کہ جناب میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ بڑی ردو کد کے بعد جب ایف آئی آر درج کرنے پر راضی ہوئے، تو فرمایا کہ کچھ ہونے کی امید مت رکھیں۔ آپ کے اصرار پر ایف آئی آر درج کررہا ہوں، لیکن کچھ ہوگا نہیں۔ اور واقعی ایف آئی آر درج ہونے کے باوجود کچھ بھی تو نہیں ہوا۔
ذرا اس بات کا اندازہ لگائیں کہ کروڑہ میں پولیس سٹیشن کے اندر ایک بے گناہ شہری کو تشدد کرکے قتل کیا گیا، لیکن انکوائری پولیس ہی کرے گی، یا زیادہ سے زیاد ایف آئی آے کرے گی، جو پولیس ہی کا ایک ذیلی شعبہ ہے۔ کیا ایسے میں کسی حقیقی اور درست تحقیقات کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یہ ایک دو واقعات تو اس لیے اہمیت اختیار کرگئے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے مشتہر ہوگئے اور عوامی احتجاج کی وجہ سے ذمہ دار حضرات پر دباؤ پڑا۔ ورنہ تو یہ واقعات عام ہیں۔ جب تک بنیادی تربیتی پروگرام میں تبدیلی نہیں کی جائے گی، اور آئی جی سے لے کر ادنا سپاہی تک قرآن و سنت کی روشنی میں بنیادی انسانی حقوق کی تربیت نہیں دی جائے گی۔ جب تک تقرری کے وقت یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ فرد کی جسمانی فٹنس کے ساتھ اس کی اخلاقی، دینی اور روحانی صحت بھی درست ہے۔ اس وقت تک پولیس کیا کسی بھی ادارے میں افراد کی کارکردگی اور رویے کو درست نہیں کیا جا سکتا؟ 73 سال سے ملک میں طاغوتی، شیطانی، غیر اسلامی نظام قائم ہے۔ آخر اس شجرِ خبیث کے زہریلے اور کڑوے پھل تو برگ و بار لائیں گے۔ اگر آپ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ دینِ اسلام کو چھوڑ کر کسی اور طریقے سے اپنے معاملا ت درست کرلیں گے، تو آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ایسا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ حقیقت میں اسلام ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ اسلام ہی کے ذریعے ہم اپنے معاشرے اور افراد کو اخلاقی، دینی اور روحانی طور پر درست کرکے ملک کے عوام کے ہمدرد غم گسار اور بہترین اخلاق و کردار کے خدمت گذار انتظامی ذمہ داران مہیا کر سکتے ہیں۔ اگر یہ نہیں تو باقی سب باتیں ہیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔