تحریر: شمس الرحمان فارقی 
’’پریمو لیوی‘‘ (Primo Levi) اٹلی کے جدید ادیبوں میں ممتاز مقام کا مالک ہے۔ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ نصف صدی میں اٹلی سے اُٹھنے والی سب سے زیادہ دیرپا آوازوں میں ایک آواز اُس کی بھی ہے۔
پریمو لیوی نے اپنے دلی کوایف سے بمشکل ہی کسی کو آگاہ کیا۔ اُس نے صنعتی کیمیا کی اعلا تعلیم پائی اور جب وہ پڑھ کر فارغ ہوا، تو اُس کے جی میں آئی کہ فرانس میں جرمنی مخالف زیرِ زمین تحریک، یعنی فرانسیسی مقاومت (French Resistance) میں شریک ہو جائے…… لیکن
اُڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
کے مصداق اس کی مخبری ہوئی اور وہ فوراً پکڑا گیا۔
جرمنی نے اُسے آتش وتش نامی قیدی کیمپ میں ڈال دیا۔ اس کیمپ کے بارے میں عام خیال تھا کہ وہاں قیدی کو مر کر ہی نجات ہوتی ہے…… اور قیدیوں کی شرحِ مرگ وہاں بہت اونچی تھی۔ لیوی وہاں دو سال رہا۔ سوویت فوجوں نے 1945ء میں اُسے آزاد کرایا۔
پریمو لیوی اپنی قوتِ ارادی اور عقل مندی کے بل بوتے پر آتش وتش میں اپنے دن گزار گیا، لیکن اس نے ان دنوں کی تفصیلات کسی کو کبھی نہیں بتائیں۔ ایک بار یہ ضرور اس نے کہا کہ میں آتش وتش کے بارے میں اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اگر یہ انسان ہے‘‘، یا ’’آتش وتش میں زندہ رہنا‘‘ (Is this a man, or, Survival in Auschwitz)لکھی، لیکن اس میں ذاتی تلخی یا اپنے داخلی حالات کا اس نے کچھ ذکر نہ کیا۔ بعد میں اُس نے اور بھی کتابیں لکھیں۔ ان میں شاعری، سائنس فکشن، مضامین اور مختصر افسانے ہیں۔
اکیس کیمیائی عناصر کے بارے میں اُس کی ایک عجیب و غریب کتاب ہے جس میں ان عناصر کو حوالہ بنا کر افکار بھری اور مراقبہ نما تحریریں ہیں۔ اس کا نام "The Periodic Table” ہے اور یہ 1975ء میں شایع ہوئی۔
اپنی صورت کے بارے میں لیوی کو کچھ بہت اعتماد نہ تھا۔ اس لیے وہ لڑکیوں سے ملنے جلنے میں جھجکتا تھا۔ بالآخر ایک لڑکی ایسی ملی جو اس کی ہم رقص بنے کو ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔ یوں دونوں کی شادی ہوگئی، لیکن ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں خیال ہے کہ آسودگی کی حامل نہ رہی ہوگی۔
لیوی کے باپ نے اس کی ماں کو چھوڑ دیا تھا…… اور اس کے بعد لیوی کی ساری زندگی ماں کی خدمت میں گزری تھی۔ شادی کے بعد بھی یہی سلسلہ رہا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ لیوی کی بیوی بھی اپنی اندھی ماں سے بندھی ہوئی تھی کہ اُس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔
ایک چھوٹے سے فلیٹ میں میاں بیوی اپنی ماؤں کی خدمت میں محو رہتے۔ آپس کے تعلقات کے لیے فرصت کم تھی۔
اس طرح لیوی کی بیوی اس بات کو ناپسند کرتی تھی کہ کوئی اور عورت اس کے شوہر کی طرف علمی اور ادبی طور پر بھی متوجہ ہو۔
ایک صبح کو پریمو لیوی چوتھی منزل پر واقع اپنے فلیٹ کے چاہ زینہ میں مردہ پایا گیا۔
بعض کثیر المنزلہ عمارتیں دایرے یا مستطیل کی شکل میں بنتی ہیں۔ چاروں طرف فلیٹ ہوتے ہیں اور بیچ میں جگہ خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ اُس خالی جگہ میں سیڑھیاں بنا دی جاتی ہیں کہ لفٹ کے بغیر بھی اوپر آمد و رفت ممکن ہو۔ اسے چاہ زینہ کہتے ہیں۔
یا کوئی بھی گہری جگہ جہاں سے اوپر جانے کے زینے نکلتے ہوں، چاہ زینہ کہلاتی ہے۔
لیوی اتفاقاً گرا ہو، یا اُسے دھکیل دیا گیا ہو…… یہ دونوں باتیں بہت ہی بعید از قیاس ہیں۔ اس نے کوئی خودکشی نامہ نہ چھوڑا…… لیکن عام خیال یہی ہے کہ اس نے خودکشی کی۔
گذشتہ دنوں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ’’آتش وتش‘‘ میں جو کچھ پریمو لیوی پر بیتی تھی اور جسے اس نے ظاہر نہ کیا تھا، اُس کا زہر آہستہ آہستہ لیوی کی باطنی طاقت کو کھا گیا…… اور اسے خودکشی کے سوا کچھ چارہ نہ رہ گیا!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔