بچپن اور لڑکپن کی یادیں کسی انسان کی زندگی کا حسین سرمایہ ہوتی ہیں جنھیں یاد کرکے انسان کے ناسٹلجیا (ماضی پرستی) کو تسکین ملتی ہے۔ فی الحال 2023ء بمطابق 1444 ہجری کا رمضان کا مقدس مہینا جارہا ہے، تو ہمیں ہمارے بچپن کے وقتوں کے روزے یاد آنے لگے۔
ماسٹر عمر واحد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/master-umar-wahid/
ہمارے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں لوگ ماہِ رمضان نہایت سادہ مگر پُروقار طریقے سے گزارتے تھے۔ آج جب ہم ست سٹھ (67) کے پیٹے میں ہیں، تو ہماری یادداشت کے مطابق اُن روزوں کا زمانہ 1960ء سے 1975ء (تقریباً) تک کا ہے۔ اُس زمانے میں آج کل کی طرح رمضان اتنا پُرتکلف نہیں ہوتا تھا، بلکہ سادہ ہوا کرتا تھا۔ نہ سحری میں اتنے تکلفات ہوتے تھے اور نہ اِفطار میں اتنے لوازمات۔ آبادی کم تھی اورآج کل کی طرح تعمیرات کی بہتات بھی نہ تھی، اس لیے زمین سادہ اور ماحول صاف تھا۔ نہایت غربت کا زمانہ تھا لیکن لوگ قانع اور خوش حال تھے۔ آپس میں دل جوئی، محبت اور ہم دردی تھی۔ اِفطار سے دو تین گھنٹے پہلے خاتونِ خانہ سادہ سے کچن میں جاکر معمولی کھانا تیار کرنے میں مصروف ہوجاتی، جو دال اور گوشت کے شوربے پر مشتمل ہوتا۔
اس طرح متمول گھرانوں میں شوربے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ سبزی اور پکوڑے ہوتے۔ البتہ اِفطار کے وقت تقریباً ہر گھر میں اچار، چٹنی اور کھجور موجود ہوتی۔ محلوں میں بعض لوگ قریبی پڑوسیوں کے ہاں سالن اور اِفطار بھیج دیتے اور بعض متمول لوگ اِفطار اور کھانا قریبی اور محلے کی مسجد میں بھیجتے۔ مسافر، غریب اور نادار لوگ بھی بعض اوقات اِفطار کے وقت کھانا مانگتے، تو لوگ انھیں ضرور دیتے۔
قارئین! یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگر اِفطار کے وقت کوئی ریڑھی بان یا کوئی راہ گیر نظر آتا، تو اہلِ محلہ اور موجود لوگ انھیں بہ خوشی اِفطار کی دعوت دیتے اور کہتے: ’’میلمہ! روژہ زمونگ سرہ ماتہ کہ!‘‘ یعنی اے مہمان! روزہ ہمارے ساتھ اِفطار کرو۔
اس زمانے میں بعض نابالغ بچے بھی روزہ رکھتے۔ گھر میں روزہ دار اِفطار کے وقت جب دستر خوان پر بیٹھتے، تو معلوم کرتے کہ فُلاں بچے کا کتنواں روزہ ہے اور فلاں بچے نے کتنے روزے رکھے ہیں؟
پھر جب مغرب کی اذان کی آواز آتی، تو گھر کا بزرگ تنبیہی آواز میں کہتا کہ اب بس، چپ کرکے دعا مانگو!
مساجد سے دور فاصلے پر گھروں میں لوگ پنکھوں تک کو بند کرتے تاکہ خاموشی میں اذان کی آواز سن کر روزہ اِفطار کریں۔ سابقہ ریاستی دور میں والئی ریاستِ سوات کے حکم پر روزہ داروں کی سہولت کے لیے سیدوشریف کے توپ خانہ بلڈنگ میں توپ داغی جاتی، جس کی آواز سیدوشریف اور مینگورہ کے علاوہ آس پاس کے دیہاتوں اور علاقوں تک پہنچ جاتی۔ اُس آواز کو سن کر روزہ دار روزہ اِفطار کرتے۔ 28 جولائی 1969ء یعنی ادغامِ ریاست تک یہ طریقۂ کار جاری تھا۔ اس کے بعد ختم کردیا گیا۔
اُس زمانے کے روزوں میں بچوں میں ایک عجیب اور دلچسپ رسم تھی۔ نہ جانے کب سے سوات میں یہ رسم جاری ہوئی کہ محلہ کے بچے مختلف ٹولیاں بناکر سالن اور روٹی لے جاتے اور اِفطار کے وقت کسی ایک بچے کے گھر کی چھت پر بیٹھ جاتے اور اذان کے بعد تمام بچے سالن اور روٹیاں مشترکہ طور پر کھاتے اور کھانے کے بعد چھت سے اُتر کر اپنے گھروں کو چلے جاتے۔
اِفطار اور اذانِ مغرب سے پہلے بچے چھت پر خاص نعرے لگاتے کہ ’’جمعہ خانہ رورہ، ڈز کوہ، ڈز پہ مازیگر کوہ…… وغیرہ۔‘‘
اِفطار اور نمازِ مغرب کے ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد مرد حضرات نمازِ تراویح کے لیے مساجد کا رُخ کرتے اور خواتین گھروں میں نمازِ تراویح کا اہتمام کرتیں۔
تراویح کے بعد افرادِ خانہ سوجاتے جب کہ خواتینِ خانہ آدھی رات کو اُٹھ کر سحری کا انتظام کرتیں۔ چوں کہ سواتی لوگ زمانۂ قدیم سے چاولوں کے دل دادہ رہے ہیں، اس لیے سحری میں سادہ چاول یا چاولوں میں مسور یا مونگ ڈال کر پکایا جاتا۔ دیسی گھی، شوربا اور بعض لوگ دودھ اور دہی ڈال کر خوش ذائقہ چاولوں کو نہایت شوق سے کھاتے۔ اُس زمانے میں اکثر روزہ داروں کی سحری کی یہ مرغوب غذا تھی۔
وقت بدل جانے کے ساتھ ساتھ اب ایسی صحت بخش غذاؤں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ہمارے اپنے مشاہدے کے مطابق زیادہ تر روزہ دار آج کل سحری میں پیزا، برگر، شوارما، ڈبل روٹی اور انڈے استعمال کرتے ہیں۔
(نوٹ: جمعہ خان سابقہ ریاستی دور میں محکمۂ توپ خانہ میں سرکاری ملازم تھا۔ رمضان میں اِفطار کے وقت توپ کا گولہ چلانا اس کی ڈیوٹی تھی، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔