پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ اسکولوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ تاہم، ان اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ مشکلات نہ صرف اُن کی مالی حالت کو متاثر کرتی ہیں، بل کہ اُن کی ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثر ڈالتی ہیں۔ اُن مسائل کے حل کے لیے اساتذہ کی یونین یا تنظیم کا قیام ضروری ہے۔
٭ کم تنخواہیں، ایک بڑا مسئلہ:۔ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کی سب سے بڑی مشکل اُن کی کم تنخواہیں ہیں۔ بیش تر پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کو 10,000 سے 20,000 روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے جو کہ موجودہ مہنگائی کے دور میں ناکافی ہے۔ ایک استاد کے لیے اس رقم میں گزارہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، خصوصاً جب وہ اپنے خاندان کی کفالت کر رہا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پرائیویٹ اسکول کا استاد مزدور سے بھی چار درجہ کم خطِ غربت میں زندگی گزار رہا ہے۔
٭ اضافی کام کا بوجھ:۔ اساتذہ کو پڑھانے کے علاوہ کئی اضافی کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔ ان میں امتحانات کی تیاری، "Co-curricular” سرگرمیوں کا انتظام، والدین سے ملاقاتیں اور انتظامی کام شامل ہیں۔ ان اضافی ذمے داریوں کے لیے انھیں کوئی اضافی معاوضہ نہیں دیا جاتا، جس سے ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔
٭ مالکان کی بے حسی:۔ بیش تر پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان اکثر اپنے اساتذہ کی مشکلات سے بے خبر یا بے پروا ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف اسکول کا منافع اہم ہوتا ہے۔ مالکان کا یہ ماننا کہ 10,000 روپے میں ایک استاد کا گزارہ ہوسکتا ہے، حقیقت سے دور ہے۔ ان کا یہ رویہ اساتذہ کی مشکلات کو مزید بڑھاتا ہے۔
٭ اساتذہ کی زندگی پر منفی اثرات:۔ کم تنخواہ اور اضافی کام کا بوجھ اساتذہ کی زندگی پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ یہ مسائل اُن کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتے ہیں، جس سے اُن کی تدریسی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اساتذہ کو اپنی پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع بھی کم ملتے ہیں، جس سے اُن کی قابلیت اور اعتماد میں کمی آتی ہے۔
٭ جید علما اور حکومت کی ذمے داری:۔ جید علما اور حکومت کو اس مسئلے پر نوٹس لینا وقت کا تقاضا ہے۔ یہ صرف تعلیمی نظام کی بہتری کا معاملہ نہیں، بل کہ اساتذہ کی زندگی کو بہتر بنانے کا بھی معاملہ ہے۔ علما کی راہ نمائی اور حکومت کے موثر اقدامات سے اساتذہ کی حالتِ زار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
٭ یونین یا تنظیم کی ضرورت:۔ اساتذہ کی یونین یا تنظیم اس استحصال کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایک منظم تنظیم اساتذہ کی مشکلات کو موثر طریقے سے حل کرنے کے لیے درجِ ذیل اقدامات کر سکتی ہے:
٭ اجتماعی آواز:۔ یونین کے ذریعے اساتذہ ایک اجتماعی آواز بن کر اپنی مشکلات اور مطالبات کو انتظامیہ تک پہنچا سکتے ہیں۔ انفرادی طور پر اپنی بات منوانا مشکل ہوتا ہے، لیکن ایک منظم تنظیم کے ذریعے یہ کام آسان ہو جاتا ہے۔
٭ تنخواہوں میں اضافہ:۔ یونین انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کروا سکتی ہے۔ ایک منظم تنظیم کے ذریعے اساتذہ اپنی تنخواہوں کو بہتر بنانے کے لیے موثر طریقے سے بات چیت کر سکتے ہیں۔
٭ اضافی کام کا معاوضہ:۔ یونین کے ذریعے اساتذہ اپنے اضافی کاموں کے معاوضے کے لیے آواز اُٹھا سکتے ہیں۔ یہ تنظیم اس بات کو یقینی بناسکتی ہے کہ اساتذہ کو اُن کی اضافی محنت کا صلہ ملے۔
٭ پیشہ ورانہ ترقی:۔ یونین اساتذہ کی پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع فراہم کرسکتی ہے۔ مختلف تربیتی پروگراموں اور ورکشاپوں کے ذریعے اساتذہ کی قابلیت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
٭ فلاح و بہبود:۔ یونین اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف اقدامات کرسکتی ہے جیسے کہ صحت کی سہولیات، ریٹائرمنٹ کے بعد کی مالی معاونت اور دیگر مراعات۔
اضافی سہولیات کی ضرورت:
٭ مفت تعلیم:۔ اساتذہ کے بچوں کے لیے مفت تعلیم فراہم کرنا چاہیے، تاکہ اساتذہ اپنی اولاد کی تعلیم کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ یہ ایک بڑی سہولت ہوسکتی ہے، جو اُن کی مالی مشکلات کو کم کرسکتی ہے۔
٭ رمضان اور تہواروں کے پیکیجز:۔ اساتذہ کو رمضان اور دیگر تہواروں کے موقع پر مناسب پیکیجز فراہم کیے جانے چاہئیں۔ یہ پیکیجز اُن کی مالی حالت کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اُنھیں خوشیوں میں شامل کر سکتے ہیں۔
یونین کے قیام کے چیلنجز:
٭ انتظامیہ کی مخالفت:۔ اسکول مالکان اور انتظامیہ یونین کے قیام کی مخالفت کرسکتے ہیں۔ اُنھیں خدشہ ہوتا ہے کہ یونین کی موجودگی سے اُن کا کنٹرول کم زور ہو جائے گا۔
٭ اساتذہ کی شمولیت:۔ تمام اساتذہ کو یونین میں شامل کرنا ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔ کچھ اساتذہ یونین کے فوائد سے آگاہ نہیں ہوتے، یا اُنھیں انتظامیہ کی مخالفت کا خوف ہوتا ہے۔
٭ قانونی مسائل:۔ یونین کے قیام کے دوران میں کچھ قانونی مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔ قوانین اور ضوابط کے مطابق یونین کا قیام اور اس کی رجسٹریشن ایک مشکل عمل ہوسکتا ہے۔
٭ پی ایس آر اے کا کردار:۔ پی ایس آر اے (پرائیویٹ اسکول ریگولیٹری اتھارٹی) پشاور جو کہ طلبہ و طالبات کی فیسوں اور پیسوں کو دیکھتے ہیں اور والدین کی انٹرسٹ کی لیے متحرک ہیں، پرائیویٹ اسکول اس کی نوٹس میں لائے بغیر فیسوں میں اضافہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح پی ایس آر اے کو پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ اور دیگر ملازمین کی تنخواہوں کی پڑتال اور دل چسپی کے لیے بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہر وہ حربہ جس میں اساتذہ کی محنت کا صلہ نہ ملتا ہو، اُس کی روک تھام بھی پی ایس آر اے کی ذمے داری میں شامل ہونی چاہیے۔
محکمہ تعلیم (BISE) کے لیے تجاویز:
٭ امتحانات کی ڈیوٹیاں:۔ محکمۂ تعلیم اور BISE” "کو تجویز ہے کہ وہ امتحانات پر ڈیوٹی سرکاری ملازمین کی جگہ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کو دی جائے، یا کم از کم 50 فی صد مواقع فراہم کیے جائیں، تاکہ اُن کی تربیت ہوسکے اور اُنھیں مالی فائدہ بھی ملے۔ یہ اقدامات اساتذہ کی پیشہ ورانہ اور مالی حالت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
٭ اضافی نمبر:۔ محکمۂ تعلیم کو چاہیے کہ سرکاری سطح پر بھرتی ہونے والے ملازمین کے انٹرویو یا ٹیسٹ میں پرائیویٹ اسکولوں میں ملازمت کرنے والے اساتذہ کو اضافی نمبر دیے جائیں۔ اس سے نہ صرف ان کی محنت کا اعتراف ہوگا، بل کہ ان کے تجربے کو بھی سراہا جائے گا۔
٭ انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلا کا کردار:۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور وکلا کو بھی پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کی حمایت میں آواز اٹھانا چاہیے۔ یہ تنظیمیں اور وکلا اساتذہ کے حقوق کے تحفظ اور اُن کے مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اساتذہ کی یونین کے قیام کے دوران میں قانونی مسائل کو حل کرنے میں وکلا کی مدد بھی ضروری ہے۔
٭ حکومت کی امداد:۔ حکومت اکثر بار کونسل اور پریس کلب کے لیے پیکیجز، آسان اقساط پر پلاٹ وغیرہ فراہم کرتی ہے ۔ یہ امداد پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کے لیے بھی دی جانی چاہیے۔ کیوں کہ ذمے دار شہری اور باشعور قوم بنانے میں ان اساتذہ کا کردار اگر سرکاری اسکولوں کے ملازمین کے برابر نہیں، تو کم بھی نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کو بھی انھی سہولیات سے مستفید کرے، تاکہ ان کی زندگی میں بہتری آسکے۔
پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کی یونین یا تنظیم کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف اساتذہ کی مشکلات کم ہوں گی، بل کہ تعلیمی نظام میں بھی بہتری آئے گی۔ اساتذہ کا استحصال روکنے اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے یونین ایک موثر قدم ہو سکتی ہے۔
جید علما، حکومت اور تعلیمی اداروں کو اساتذہ کے یونین کے قیام میں تعاون کرنا چاہیے، تاکہ ایک مضبوط اور منظم تعلیمی نظام تشکیل پاسکے۔
اساتذہ کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت، پی ایس آر اے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور وکلا کو مل کر کام کرنا چاہیے، تاکہ ایک منصفانہ اور متوازن معاشرہ قائم کیا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔