گذشتہ بیس سالوں میں دنیا میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ نئی ایجادات نے لوگوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ کچھ نئی بیماریوں نے زندگی کو پریشان بھی کر رکھا ہے۔ کورنا ان میں سے ایک ایسی وبا تھی، جس نے دنیا بھر میں اپنی موجودگی دکھائی اور اسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
ایجادات تو بے شمار ہوئیں، مگر تین ایجادات ایسے بھی ہوئیں کہ جن کی وجہ سے دنیا ہی بدل کر رہ گئی۔ ایک ایجاد موبائل فون، دوسری انٹرنیٹ اور تیسری سوشل میڈیا۔ ان تینوں نے ابھی تک دنیا بھر میں وہ کمالات دکھائے ہیں کہ ڈھیر ساروں کو دن میں تارے نظر آگئے ہیں۔
اب کچھ غریب ملکوں میں علاج یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ ان تینوں میں سے کسی بھی دو پر پابندی لگادو، تاکہ لوگ ہم سے سوال نہ کریں اور مدتوں سے جاری ظلم، ناانصافی اور استحصال کا نظام چلتا رہے۔
وہ نظام جس میں ایک خاص طبقے کی اجارہ داری جاری رہتی ہے اور عوام کی حالت پتلی ہوتی چلی جاتی ہے۔ مذکورہ تینوں ایجادات نے اس استحصالی نظام کی بنیادوں کو ڈگمگا کر رکھ دیا ہے۔ کہیں پرپوری بورژوائی عمارت زمین بوس ہوگئی ہے اور کہیں پر فرسودہ استحصالی نظام کے نیچے تبدیلی کا ارتعاش محسوس کیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں دیکھا گیا ہے کہ کس سوشل میڈیا نے ’’عرب اسپرنگ‘‘ کو جلا بخشی اور کئی بادشاہتوں اور حکومتوں کو ماضی کا قصہ بنا کر رکھ دیا۔
موبایل فون، انٹرنٹ اور سوشل میڈیا ہی کا کمال ہے کہ دہائیوں کے قدامت پرست سعودی عرب میں عصرِ جدید کے مطابق انسانی آزادیوں کو راہ ملی اور عشروں سے ملاؤں کے زیرِ قبضہ ایران میں معتدل مزاج پزیشکان صدر بن گیا ہے۔
اگرچہ مذکورہ دونوں ملکوں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے استعمال پر کئی ایک پابندیاں عائد ہیں، جیسے کہ انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کو برقع پہنایا گیا ہو، مگر پھر بھی اس کے اثر سے مذکورہ ممالک محفو ظ نہیں رہے۔
آج کی دنیا میں لیکن یہ ناممکن ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر مسلسل پابندی عائد کرتے جائیں۔ ملکوں کی جغرافیائی سرحدات پر آمد و رفت کے لیے پابندیاں عائد کرنا آسان ہے، لیکن انٹرنٹ کی دنیا ایسا عالم گیر جال بن چکا ہے کہ اس پر مکمل پابندی عائد کرنا اگر ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔
چین نے اس عالمی تصوراتی دنیا سے خود کو بچانے کے لیے ڈھیر سارے متبادل نظام وضع کیے ہیں۔ مثلاً: چین بھر میں وٹس ایپ کام نہیں کررہا، بل کہ ’’وی چیٹ‘‘ کو استعمال کیا جارہا ہے۔ مگر اعداد وشمار بتارہے ہیں کہ چین میں کروڑوں لوگ ’’وی پی این‘‘ وغیرہ کا سہارا لے کر فیس بُک، وٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیائی سہولیات سے مستفید ہورہے ہیں۔
ایران میں بھی لوگ ’’پراکسی سائٹس‘‘ کے ذریعے عالمی سوشل میڈیائی دنیا سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ایران کے ایک پڑوسی ملک میں بھی آج کل ایکس (ٹوئٹر) پر پابندی ہے، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے تمام بڑے خود ’’ایکس‘‘ (سابقہ نام ٹوئٹر) کا استعال دھڑلے سے کررہے ہیں۔ اب ایسی پابندی جس پر حکومت کے ذمے داران بھی عمل نہ کرتے ہوں، کس طرح موثر ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ’’ایکس‘‘ کے صارفین نے ’’وی پی این‘‘ کا استعمال کرکے حکومتی پابندی کو عملاً ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
اب شنید ہے کہ کوئی اور نظام وضع کیا جا رہا ہے، جس سے ملک میں بھر میں تمام سوشل میڈیا سائیٹس سے ناپسندیدہ مواد کو حذف کیا جائے گیا۔
نہیں معلوم یہ پالیسی ساز کس دنیا میں جی رہے ہیں؟ جن کو ہر مسئلے کا حل صرف پابندی میں نظر آتاہے۔ حالاں کہ شواہد یہی بتاتے ہیں کہ جس بھی چیز پر پابندی لگائی جاتی ہے، اس کی ترسیل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پابندی سے کوئی بھی چیز کا راستہ روکا نہیں جاسکتا۔ صرف دام اور مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ٹمبر اسمگلنگ پر پابندی ہے، تو کیا ہمارے علاقے کے جنگلات میں بے دریغ کٹائی ختم ہوئی؟
شراب پرپابندی ہے، تو کیا شراب نہیں بکتی؟
ملکی سرحدات پر پہرے ہیں، تو کیا غیر ملکی سامانات اسمگلنگ کے ذریعے ملک بھر میں نہیں پہنچ جاتے؟
پہلے کئی سیاسی پارٹیوں پر پابندیاں لگائی گئیں اور وہ پارٹیاں اب بھی فعال ہیں۔ البتہ پابندی لگانے والوں کا کہیں بھی ذکرِ خیر نہیں ہورہا۔ لہٰذا ایک اور پارٹی پر بھی پابندی لگا کر اپنے کارناموں میں اضافہ کیجیے۔ کامل 20 سال لگے، اس تبدیلی کو جو دنیا بھر میں موبائل فون، انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کی بہ دولت آئی ہے۔ آپ کَہ سکتے ہیں کہ یہ اچھی تبدیلی نہیں۔ کسی بھی نئی چیز کی طرح اس کے بھی منفی اور مثبت پہلو دونوں نمایاں ہیں…… لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک پابندی کے حکم سے ہم اس سے جان چھڑالیں گے، تو یہ بھول ہے۔ لہٰذا پابندیوں سے بہتر یہ ہے کہ اس کے ساتھ رہنا اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کوئی سبیل نکالیں۔ جب پڑوسی ملک ان ایجادات سے سالانہ اربوں روپے کمارہا ہے، تو ہم کیوں نہیں کما سکتے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔