ٹی ایس ایلیٹ (1888-1965) کا نظریۂ روایت اور انفرادی صلاحیت نے نئی تنقید کے ساتھ ساتھ مابعد جدید تھیوری پر بھی اثرات مرتب کیے۔ وہ شاعری کو غیر شخصی قرار دیتا ہے کہ وہ شخصی جذبات نہیں رکھتی۔ وہ شاعر کے ذہن اور اس کی شخصیت کو الگ الگ حیثیت میں بیان کرتا ہے۔ وہ شاعر کی شخصیت (جو محسوس کرتی ہے) اور شاعر کے ذہن (جو تخلیقی عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جذبات کو نئے امتزاجی رشتوں میں ڈھالتا ہے) میں فرق سمجھتا ہے۔ اس کے خیال میں شاعری شخص کو ذریعہ بناتی ہے۔ اس لیے ادب کو شخصی حوالے سے یا سوانحی حوالے سے ہٹ کر دیکھنا چاہیے۔ وہ پوری دنیا کے ادب کو ایک نظام میں منسلک قرار دیتا ہے۔ وہ نظام جو اس کے خیال میں مثالی ہے۔ شاعر اسی مثالی نظام سے وابستہ ہوتا ہے۔
ایلیٹ کے تصورِ روایت نے نئی تنقید کے علمبرداروں کو تحریک دی کہ شعر کی تفہیم کے لیے فن پارے سے باہر مت جھانکیں بلکہ شعریات پر توجہ دیں۔
ایلیٹ اپنے نظریات میں فنکار کی انفرادیت کے بجائے شخصیت کی نفی کرتا ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ کے نظریے نے بیسویں صدی میں ادبیت پر زور دیا۔ نئی تنقید بھی ادب کی ادبیت کو قائم رکھتی ہے۔
(’’تنقیدی نظریات اور اصطلاحات‘‘ از ’’ڈاکٹر محمد اشرف کمال‘‘، مطبوعہ ’’نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘، اشاعت دسمبر 2019ء، صفحہ نمبر 82 اور 83 سے انتخاب)