ٹروما تھراپسٹ ’’اینا رنکل‘‘ ٹروما سے گزرنے والے افراد کو اکثر ٹروما سے ملنے والے زخموں کو بھرنے کے لیے کئی تکنیک اور پریکٹس میں ایک پریکٹس دوسروں کو بِنا بتائے ان کی مدد کرنے یا بِنا کسی شخص یا لوگوں کو معلوم ہوئے ان کا کوئی کام کرنے، کو بہترین عمل بتاتی ہیں۔
وہ مدد یا عمل جو صرف آپ کو معلوم ہو اور جس سے کسی کو فایدہ پہنچے، اس سے آپ شفایاب (Healed) محسوس کرتے ہیں۔ اینا کی اس بات سے مجھے یہ حدیث یاد آگئی (جو اکثر ہم اسلامیات کا پرچہ پاس کرنے کے لیے لکھتے تھے ) ’’ایک ہاتھ سے صدقہ کرو، تو دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے۔‘‘
بے شک اس حدیث میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دانش کی معراج پر ہیں۔
ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں اشتہار بازی بہت عام ہے۔ کبھی کبھار اپنی چیزوں یا سرگرمیوں کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا یا ان کا اعلان کرنا غلط نہیں…… لیکن اشتہار لگانے کی مفت سہولت (سوشل میڈیا) نے اسے بہت عام کردیا ہے۔ اتنا عام کہ اب شاید اس دکھاوے سے اکتاہٹ ہونے لگی ہے لوگوں کو…… اور خاص کر اس کی زیادتی کا نقصان ہماری ذہنی صحت کو ہے۔
اکثر دوسروں کی مدد کرکے ہم جذباتی محسوس کرتے ہیں…… اور جن کی مدد ہورہی ہو، وہ بھی جذباتی ہوجاتے ہیں…… لیکن جذبات آپ کے ٹروما اور اس سے ملنے والے زخم کو نہیں بھرتے…… اور نہ آپ کی ذہنی صحت پر مثبت اثر ہی ڈالتے ہیں…… بلکہ جذبات کو کنٹرول کرنا اور اس سے جسم میں پیدا ہونے والے احساسات (Sensations) کا خاموشی سے مشاہدہ کرتے ہوئے ان کو ’’جانے دینا‘‘ (let Go) آپ کے جذباتی زخم (Trauma) کو بھرتا ہے۔
مذکورہ حدیث کی خوب صورتی یہ ہے کہ اس میں جسمانی احساسات کا مشاہدہ کرنے کو کہا گیا ہے۔ اس میں کچھ اچھا کرنے والے کام سے ہونے والی اکساہٹ (Excitement) کو حل (Dissolve) کرنے کا حکم اور وہ بھی اس قدر ’’خاموشی‘‘ سے کہ آپ کے دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو، یعنی آپ کو کسی کی مدد کرنے کے بعد اس سے پیدا ہونے والی ’’تعریف‘‘ کی چاہ اور تمنا پر حد درجہ کنٹرول ہونا چاہیے۔
اس والی پریکٹس کے لیے ’’خالص آگاہی‘‘ (Pure Awareness) چاہیے۔
مذکورہ حدیث سے مجھے بدھ مت کی ایک میڈیٹیشن پریکٹس یاد آئی جسے ٹونگلین میڈیٹیشن (Tonglen Meditation) کہتے ہیں۔ اس میڈیٹیشن میں آپ دوسرے انسانوں (جنھیں آپ جانتے ہیں، جن سے آپ کو نفرت ہے، یا محبت ہے یا جنھیں آپ نہیں بھی جانتے) کا درد، تکلیف، غصہ، نفرت، خوف، اس دنیا میں موجود ناانصافی اور بربریت کو ایک گہرا سانس لے کر، اسے تصور کرکے اپنے جسم کے اندر محسوس کرتے ہیں، کچھ دیر کے لیے سانس روک کر اسے محسوس کرتے رہتے ہیں اور پھر اس درد کو محبت، ہم دردی (Compassion)، مسرت (Joy)، امید (Hope) میں بدل کر سانس کو چھوڑ (Exhale) دیتے ہیں۔ آپ بھی سوچیں گے کہ یہ کیا پاگل پن ہے ، اس سے کیا ہوگا……؟ اور مَیں کیوں انسانوں اور خاص کر اُن انسانوں جن سے مجھے نفرت ہے، اُن کے بارے میں اچھا سوچوں…… مجھے اس سے کیا مل رہا ہے…… ؟
یہ پاگل پن آپ کو سکون دے سکتا ہے…… اور خاص کر تب جب آپ سب کے سامنے ڈھنڈورا پیٹے بغیر کہ ’’مَیں نے تم سب کے لیے دعا کی…… یا مَیں بہت نیک نیت انسان ہوں…… وغیرہ وغیرہ۔‘‘
صرف اپنے درد کے ساتھ چپکے بغیر دوسروں کا درد بھی محسوس کریں گے، تو اس سے آپ کو سکون ملے گا۔ آپ کے اندر کی نفرت کم ہوگی اور اب اس نفرت اور غصہ سے ضایع ہونے والی انرجی بچا کر آپ کسی ’’پروڈکٹو‘‘ (Productive) کام میں لگا سکتے ہیں…… لیکن آپ نے اعلان نہیں کرنا ہوتا کہ میں ٹونگلین میڈیٹیشن کررہا ہوں اور بہت ہی کوئی عظیم انسان ہوں!
یہ دراصل بہت خاموشی سے کرنے والا عمل ہے، جس کا فایدہ انسانیت کو شاید بالواسطہ (Indirectly) ہو…… لیکن آپ کی ذہنی صحت کو بلاواسطہ (Directly) ہے۔ کیوں کہ یہ آپ کے اندر کی دنیا کو شفا دیتا ہے اور جس انسان کے اندر کی دنیا (Inner World) شفایاب ہو، جس کے ماضی کے بوسیدہ اور لاشعوری زخم بھرے ہوئے ہوں، وہ دوسروں میں بھی شفا بانٹتا ہے…… اور جس کے اندر محض درد، تکلیف اور نفرت بھری ہو، وہ اپنے آس پاس والوں کو اسی کا احساس دلاتا ہے۔
بے شک……! آپ کی اندر کی دنیا ہی آپ کی باہر کی دنیا کو تخلیق کرتی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔