رشوت ستانی کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ خود ہے۔ یہ دنیا کی قدیم ترین دو پیشوں یعنی بھیک اور جسم فروشی کی طرح ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ اس کے سدباب کے تمام جتن اس لیے ناکام ہوتے ہیں کہ اس میں خلوصِ نیت کا فقدان ہوتا ہے۔ حالاں کہ ہر زمانے میں اس کی روک تھام کے قوانین نافذ رہے ہیں، مگر ان قوانین کا صحیح نفاذ ہی نہیں ہوتا۔ یہ ہم بالکل نہیں کہیں گے کہ ریاستی دور میں سوات میں کرپشن مکمل طور پر ناپید تھی۔ ہاں، مگر وہ پاکستان میں جاری و ساری کرپشن کی طرح ہول سیل کی بنیادوں پر نہیں ہوتی تھی اور اگر کوئی اس طرح کا کیس حکمرانِ سوات کے نوٹس میں لانے کی ہمت کرتا، تو وہ اس پر فوری کارروائی کرتے۔ اس سلسلے میں مجھے ذاتی طور پر دو کیس اُٹھانے کا موقع مل گیا تھا اور دونوں کا فیصلہ منٹوں کے اندر اندر ہوا تھا۔

پہلا کیس کچھ اس طرح تھا کہ بنجوٹ گاؤں میں 1961ء کے دوران میں ایک پرائمری اسکول محکمانہ طور پر ٹھیکے دار سسٹم کے بغیر بن رہا تھا۔ مقامی پولیس کا انچارج جمعدار جس کا تعلق موضع چندا خورہ کبل سے تھا، گیلکاروں (معماروں) کی حاضری لگاتا اور ہر پندرہ دن بعد ہمارے دفتر سے ان کی دہاڑی وصول کرکے لے جاتا۔ تین چار مہینے گزر گئے اور کام تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اپنے افسر محمد کریم صاحب کے حکم پر میں نے سائٹ پر جاکر کام کا جائزہ لیا اور جمعدار مذکور کو کام تیز کرنے کی ہدایت کی۔ اگلی ادائیگی کا وقت آیا، تو جمعدار مذکور کسی کام میں مصروفیت کی وجہ سے نہ آسکا۔ وہ سارے گیلکار دہاڑی لینے آگئے۔ میں نے ایک ایک سے اس کے ایام کار پوچھ کر اُن کو پیسے دیے۔ کسی نے بھی پورے پندرہ دن کام نہیں کیا تھا اور زیادہ سے زیادہ چار یا پانچ دن حاضر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ خزانے سے تو بل پورا آیا ہے، تو جمعدار کی ساری بددیانتی کھل کر سامنے آگئی۔ میں نے اپنے افسر کو ساری کہانی سنائی اور بچا ہوا روپیہ، بل اور متعلقہ گیلکاروں سے حاصل کردہ بیان حلفی سب ان کے سامنے رکھ دیا۔ وہ فوراً کرسی سے اُٹھے اور مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم والی صاحب کے دفتر پہنچے، تو وہ اُٹھنے اور دفتر سے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ محمد کریم صاحب نے اُن کو کھڑے کھڑے ساری بات سنائی۔ میں نے دیکھا کہ حکمرانِ سوات شدید غصے کے عالم میں ہیں۔ کچھ دیر بعد انھوں نے مجھ سے گزشتہ بلوں کے بارے میں تفصیل معلوم کی اور ساتھ ہی ہدایت کی کہ کل مذکورہ جمعدار کو اُن کے حضور میں پیش کیا جائے۔ حسبِ ہدایت ہم اگلی صبح اُس جمعدار کو بلوا کر دفتر چلے گئے۔ راستے میں کمانڈر پولیس میاں سید لالہ کا دفتر تھا۔ اُن کو بھی اعتماد میں لیا۔ کیوں کہ ملزم ان کے محکمے میں ملازم تھا۔ پھر ہم والی صاحب کے حضور میں پیش ہوئے۔ انھوں نے جمعدار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تم نے ایسا کیوں کیا؟ تم نے قوم کا پیسہ چرانے کی جرأت کیسے کی؟ پھر مجھ سے فرمایا اس شخص نے کل کتنی چوری کی ہوگی؟ میں نے عرض کیا اگر سارے بلوں میں موجودہ بل کے تناسب سے غبن کیا گیا ہو، تو تین ساڑھے تین ہزار کے درمیان ہوگی۔ والی صاحب نے حکم صادر کرتے ہوئے کہا کہ اس جمعدار سے سرکاری اسلحہ لے لو اور اسے ملازمت سے برخاست کر دو۔ جو اُس نے چرایا ہے وہ اس کی گریجیویٹی ہوگئی۔ دراصل اس پیشی سے قبل ایک نہایت اہم ریاستی عہدہ دار کو اس بات کی سن گن ہوگئی تھی اور اُس نے حکمرانِ سوات سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو جیل نہ بھیجیں۔ صرف جرمانہ لگا دیں یا نوکری سے نکال دیں۔

والیِ سوات کی ایک یادگار تصویر، گراسی گراونڈ میں ایوب خان سلامی لیتے ہوئے۔ (Photo: Dawn)

اسی طرح کا ایک اور کیس وینئی پل کے وٹہ جات کی تعمیر کے وقت سامنے آیا۔ جہاں پر بالکل اسی طریقہ سے وہاں پر کام کرنے والے فوجی دستے کا محرر حاضریوں میں گھپلا کرتا تھا اور اسی طرح وہ ایک بار پیسے لینے نہیں آیا، تو گیلکاروں کی آمد پر اُن کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ جب ہم نے یہ کیس والی صاحب کی خدمت میں پیش کیا، تو انھوں نے فوری طور پر اُس کلرک کو جیل بھجوا دیا۔

ایک اور کیس والی صاحب نے خود ٹریس کیا تھا جس کا تعلق ہمارے محکمے سے نہیں تھا بلکہ اُن کی اپنی رہائش گاہ سے تھا۔ ہوا یوں کہ شاہی محل کو روزمرہ کی ضروریات کی فراہمی کا کام ایک سپلائر کو ٹھیکہ پر دیا گیا تھا جو حسب ضرورت گوشت، سبزیاں وغیرہ لاکر باورچیوں کے حوالے کرتا۔ اُس کو ماہانہ بنیاد پر اس کے تیار کردہ واؤچرز پر حکمرانِ سوات کے اپنے "پریوی پرس” سے ادائیگی کی جاتی تھی۔ اُس کے ماہانہ بلوں کی رقم بڑھتی گئی اور کھانے کی اشیا میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آخرِکار والی صاحب نے اُس کی چوری پکڑ لی اور اُس شخص کو جیل بجھوا دیا۔ اس آدمی کی ایک نہایت بوڑھی والدہ روز اپنے بیٹے کی رہائی کے لیے دفتر جاتی لیکن اس کو کوئی ملنے نہیں دیتا۔ ایک شام والیِ سوات پیدل عقبہ روڈ پر جا رہے تھے۔ بڑھیا کو پتا چلا تو بھاگم بھاگ وہاں پہنچی۔ اُس نے آگے بڑھ کر والی صاحب کو ہاتھ سے پکڑ کر روک لیا اور کہا: ’’میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔‘‘ والی صاحب نے کہا: ’’اماں! تمھارے بیٹے نے مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘ بڑھیا نہایت استقامت سے بولی: ’’کیا تم کو شرم نہیں آتی، میرے شوہر نے تمھیں قرآن پڑھایا تھا۔‘‘ والی صاحب اس خاتون کی جرأت دیکھ کر سکتے میں آگئے۔ پھر ایک گارڈ کو کہا: ’’تم واپس جاکر بنگلے سے انسپکٹر جیل کو فون کر دو کہ اس کے بیٹے کو اسی وقت رہا کر دے۔‘‘

اور جب ہم ادغامِ ریاست کے بعد بی اینڈ آر ڈیپارٹمنٹ میں آگئے، تو ہمارے انداز ہی بدل گئے۔ ہم پر نئے نئے اسرار کھلتے گئے اور چند سال بعد ہم بھی صاحبِ اسرار ہوگئے۔

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔