واسوخت اردو صنفِ شاعری ہے اور اس سے مراد بے زاری ہے۔ واسوخت نظم کی وہ قسم ہے جس میں شاعر اپنے محبوب کی بے وفائی، تغافل اور رقیب کے ساتھ اس کے تعلق کی شکایت کرتا ہے اور ساتھ ہی اپنا کسی اور محبوب سے واسطہ ظاہر کرکے اس کو دھمکاتا ہے، مثلاً
تو جو بدلا ہے، تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی
’’گذشتہ لکھنؤ‘‘ میں عبدالحلیم شررؔ نے واسوخت کی یہ تعریف کی ہے: ’’اردو شاعری کی ایک قسم واسوخت ہے۔ یہ ایک خاص قسم کے عاشقانہ مسدس ہوتے ہیں۔ان کا مضمون عموماً یہ ہوتا ہے کہ پہلے اپنے عشق کا اظہار، اس کے بعد محبوب کا سراپا، اس کی بے وفائیاں، پھر اس کے حسن و جمال کی تعریف کرکے محبوب کو بلانا، چھیڑنا، جلی کٹی سنانا اور یوں اس کا غرور توڑ کے پھر ملاپ۔‘‘
شررؔ نے واسوخت کا مؤلد لکھنؤ کو قرار دیا ہے، جب کہ ’’گلِ رعنا‘‘ کے مصنف عبدالحئی نے میر تقی میرؔ کو واسوخت کا پہلا شاعر کہا ہے۔
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ادبی اصطلاحات مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن صفحہ نمبر 175-76 سے انتخاب)