’’نشو و نَما‘‘ (عربی، تذکیر و تانیث مختلف فیہ) کا اِملا عام طور پر ’’نشونما‘‘ رقم کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کا تلفظ بھی غلط (نشو و نُما) ادا کیا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’حسن اللغات (جامع)‘‘، ’’کریم اللغات‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’اظہر اللغات‘‘(مفصل)‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘، ’’فرہنگِ عامرہ‘‘، ’’جامع اُردو لغت‘‘، ’’علمی اُردو لغت (جامع)‘‘ اور ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’نشوونما‘‘ ہے جب کہ تلفظ میں اختلاف ہے۔
’’نوراللغات‘‘ (کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن) کے مطابق: ’’یہ نما بفتحِ اول بمعنی بالیدگی ہے۔ اس مرکب میں نما بضمِ اول غلطی سے بول چال میں ہے۔‘‘
’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ (جدید کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن) میں ’’نشو و نما‘‘ پر اعراب موجود نہیں۔
’’حسن اللغات (جامع)‘‘ میں بھی اعراب موجود نہیں۔
’’کریم اللغات‘‘ میں بھی اعراب موجود نہیں۔
’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘ کے مطابق تلفظ ’’نَش۔ او۔ نُ۔ ما‘‘ ہے۔
’’اظہر اللغات(مفصل)‘‘ کے مطابق ’’نشو و نُما‘‘ ہے۔
’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ کے مطابق تلفظ ’’نشو و نُما‘‘ ہے لیکن ساتھ یہ صراحت بھی درج ہے: ’’اصلاً: نشو و نَما۔‘‘
’’فیروز اللغات (جدید)‘‘ کے مطابق ’’نشو و نَما‘‘ ہے۔
’’فرہنگِ عامرہ‘‘ کے مطابق ’’نَش وُو نَما‘‘ ہے۔
’’جامع اُردو لغت‘‘ کے مطابق ’’نشو و نُما‘‘ ہے۔
’’علمی اُردو لغت (جامع) ‘‘ میں بھی اعراب موجود نہیں۔
اس طرح ’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ میں بھی اعراب موجود نہیں۔
’’نشو و نَما‘‘ کے معنی ’’بالیدگی‘‘، ’’بڑھنا اور اُگنا‘‘، ’’پرورش پانا‘‘، ’’رونق‘‘، ’’ظہور‘‘، ’’ترقی‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
صاحبانِ نور و آصفیہ نے حضرتِ صباؔ کا اِک شعر حوالتاً یوں درج کیا ہے:
چشمِ پُر آب سے ہے نشو و نما ساون کی
نفسِ سرد نے باندھی ہے ہوا ساون کی
’’نور اللغات‘‘ میں مذکورہ مرکب کے بارے میں یہ صراحت بھی موجود ملتی ہے: ’’مولف کی رائے میں ترجیح تانیث کو ہے۔‘‘
حوالے کے طور پر رقم شدہ شعر میں حضرتِ صباؔ نے بھی ’’نشو و نَما‘‘ کو مونث کے طور پر استعمال کیا ہے۔
حاصلِ نشست:۔ زیرِ تبصرہ مرکب لفظ کا اِملا ’’نشو و نما‘‘ جب کہ تلفظ ’’نَش وُو نَما‘‘ ہے۔ اس طرح اسے اگر تحریر میں مونث کے طورپر استعمال میں لانے کو ترجیح دی جائے، تو از چہ بہتر!