مینگورہ شہر میں آباد ایک قدیم محلہ جو اَب بھی باقی شہر کے برعکس اپنی انفرادیت اور بنیادی ڈھانچا قائم رکھے ہوئے ہے، محلہ بنجاریان ہے۔ اس میں قائم بنجاریان مسجد جس میں کسی وقت احمدین طالب بہ حیثیت طالبِ علم مقیم تھے، اس کی زمین باچا صاحب نے وقف کی اور بنجاریانوں (بنجاریوں) نے مسجد آباد کی، جس میں احمدین طالب اپنی پوری فطرت پرستی کے ساتھ مقیم رہے۔ یہاں آدھی صدی تک تگا استاد صاحب امام مسجد رہے۔ سرخ و سپید خوب صورت افغان امام اور اُن کے بعد پچھلی چار دہائیوں سے مولانا شمس الحق صاحب امامت کر رہے ہیں۔ غالباً 1950ء میں اس کچی مسجد کو اسماعیل اور اسحاق حاجی صاحب نے از سرِ نو تعمیر کیا۔
بنجاریان کون ہیں اور کہاں سے آئے؟ تو اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ مینگورہ میں اطہر خیل بنجاریان کے دو گھرانے ڈھائی سو سال سے زیادہ عرصے سے آباد ہیں۔ نوشہرہ میں ایک پہاڑی ہے، اُس پہاڑی کو کنڈر (کھنڈر) کہتے ہیں۔ جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ اس پہاڑی کے اوپر ایک بزرگ کا مزار ہے، جو ’’بنجاری بابا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ بنجاری گھرانوں کا شجرۂ نسب بنجاری بابا سے جاکر ملتا ہے، مگر آگے کوئی معلومات نہیں۔ مینگورہ کے بنجاری گھرانوں کی کچھ کڑیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں، جن کو جتنا ممکن تھا سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بنجاری شجرۂ نسب فارسی زبان میں رمزیہ شکل میں موجود تھا، مگر بے توجہی نے کہیں ضائع کر دیا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ پروفیسر سلیمان (مرحوم) نے بنجاری تاریخ پر کافی کام کیا تھا، مگر ان کے بیش تر ذخیرۂ کتب کی طرح یہ بھی کہیں بے توقیری میں کھو گیا۔
کوشش ہے کہ دونوں گھرانوں کے سلسلے الگ الگ بیان کیے جائیں اور ماضی میں جہاں سے ممکن ہے، حال تک پہنچایا جائے۔
مینگورہ کو آباد کرنے والے اور آباد رکھنے والے یہ باشندگان مینگورہ شہر کا اٹوٹ انگ ہیں اور آج بھی یہاں قدریں موجود ہیں۔ پرانا شہر موجود ہے۔ پرانے وقت کے لوگ موجود ہیں۔ ڈھیر سارا خلوص اور اپنائیت موجود ہے۔
پہلے بنجاری خاندان کے ایک شجرے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس میں لالی بابا کے نام کی معلومات تک پہنچ پائے ہیں، جن کی قبر محمد گل شہید مینگورہ قبرستان میں ہے۔ اُن کے بیٹے نور احمد بھی وہیں آسودۂ خاک ہیں۔
نور احمد کے چار بیٹوں کے نام یہ ہیں: امیر احمد، علی احمد، اجون، فوجون ( فوجون یا پوجون کی شادی احمد گل بابا کی بیٹی کے ساتھ ہوئی۔ یوں دونوں خاندانوں میں رشتے شروع ہوئے۔ اب بہت ساری رشتے داریاں ہیں۔)
امیر احمد کے دو بیٹے تھے: گل محمد اور پیر محمد۔ گل محمد کی اولاد نہیں تھی، جب کہ پیر محمد کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: شمس الواحد گوگا استاد، اکبر خان بابو چاٹئی ملائی والا مین بازار، خائستہ محمد کپڑے والا، شیر محمد نیشنل سنٹر/ ڈاک خانہ۔
شمس الواحد گوگا استاد صاحب کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: عمر واحد، فضل واحد، عصمت علی اور یوسف علی۔
اکبر خان بابو چاٹئی ملائی والا مین بازار کی اولاد نہیں تھی۔
خائستہ محمد کپڑے والا کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: اعجاز علی، فہد علی اور جواد علی۔
شیر محمد نیشنل سنٹر ڈاک خانہ کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: اختر علی، محمد اجمل، بلال اور حمزہ۔
نور احمد بابا کے دوسرے بیٹے علی احمد کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: گل احمد استاد صاحب، صنوبر مرزا صاحب ، نذیر گل، شاہ گل عنبر، جان محمد اور تاجی رحمان۔
گل احمد استاد صاحب کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: پروفیسر سلیمان (مرحوم)، اُن کے بیٹے سجاد، نیاز اور اظہار،محمد رفیق اُن کے بیٹے فیاض اور توصیف، زاہد حسین سوات الیون اور اُس کا بیٹا اویس۔
صنوبر مرزا صاحب کے بیٹوں کے نام یہ ہیں: کپتان الطاف حسین،عنایت حسین ، ابرار حسین ، صلاح الدین۔
نذیر گل کے بیٹوں کے نام ہیں: عنایت الرحمان اور اُن کے بیٹے واجد، کاشف، باسط وکیل صاحب۔
مجیب الرحمان اُن کے بیٹے فواد، وسیم اور عادل۔
عطاء الرحمان تاخانے کے بیٹے فہد۔
شمس الرحمان کے بیٹے ڈاکٹر عاقب، اعزاز (سی اے)۔
رفیع اللہ کے بیٹے منصور احمد۔
سہیل کے بیٹے بلال اور جلال۔
شاہ گل عنبر کے بیٹے سیراج الدین واپڈا، اُن کے بیٹے شہزاد، ساحل اور ماجد۔
آفتاب الدین، اُن کے بیٹے سبیل، بزقیل، نبیل۔
ناصر الدین کے بیٹے حمزہ، طلحہ اور راحیل۔
شہاب الدین کے بیٹے عبید اور سمیع اللہ۔
نظام الدین کے بیٹے کانام ضیاء الدین (مرحوم) ہے۔
آفتاب علی کے بیٹوں کے نام سفیان، رحمان اورروحان ہیں۔
جان محمد کے بیٹے محمد عالم ، محمد عمان، اقبال حسین اور ڈاکٹر برکت حسین ہیں۔
تاجی رحمان کے بیٹے افتخار ، وقار اور شیراز ہیں۔
آجون بابا کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
فوجون دادا کے بیٹوں کے نام گل روز، شمروز، بہروز، نمروز ، شمس التبریز ہیں۔
گل روز کے بیٹے شمس القمر، شمس العارفین، محمد فاروق،محمد شعیب، محمد ریاض بابو، امجد علی اورارشد علی ہیں۔
شمروز کے بیٹوں کے نام محمد ظہیر، محمد طاہر عرف ببوگے اور محمد زبیر ہیں۔
بہروز کے بیٹوں کے نام فضل مولا، فضل کرم اور بخت کرم ہیں۔
نمروز کے بیٹوں کے نام رحمت علی، لیاقت علی، حیات علی اور مراد علی ہیں۔
تبریز کے بیٹوں کے نام محمد صاحب، پرویز، رحمت حیات عرف مساوات، محمد علی، شاہد علی اور فیصل صالح حیات ہیں۔
٭ بنجاریان دوسرا گھرانا:
بدقسمتی سے اس گھرانے کی معلومات بھرپور کوشش کے کم ہی دست یاب ہیں اور جو دست یاب ہیں، ان کے مطابق:
رحمت گل بابا، اُن کے بیٹے معصوم گل ، جمعہ گل اور محمد گل ہیں۔
معصوم گل کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ محمد گل کے بیٹے تازہ گل اور سیراج ہیں۔
تازہ گل، اُن کے بیٹے ایوب خان چونگی والا، یعقوب سوات الیون، محمد عالم نمے، افضل پینٹر اور وزیر ہیں۔
سیراج کے بیٹے سلطنت خان پولیس، ناصر خان اور آصف خان ہیں۔
جمعہ گل کے بیٹے بہار گل، گل بشر، عمرگل طوطا اور شیرین ہیں۔
بہار گل کے بیٹے مختیار حسین (جہانزیب کالج) اور حیدر علی ہیں۔
گل بشر کے بیٹے معتبر خان، فیض علی خان (شہید)، سیف اللہ خان طوطا (المعروف شینا طوطا) اور عمرا خان ہیں۔
عمر گل طوطا نے شادی نہیں کی۔ فائر بریگیڈ میں تھے۔ پھر سماجی خدمات کے لیے زندگی وقف کی۔
شیرین کے بیٹے شجاعت علی اور ممتاز علی ہیں۔
محمد گل کا بیٹا شیر علی (پلوشہ سنیما) ہے۔
یہ تو وہ نام ہیں جو معلومات کرکے حاصل کیے گئے ہیں۔ بنجاریان محلہ کے ’’پورے راپورے بنجاریان‘‘ (یعنی گلی کے اُس طرف رہنے والے اور اِس طرف رہنے والے) سب اس میں شامل ہیں۔ یہ دونوں گھرانے ایک جگہ مکس رہتے چلے آرہے ہیں۔ کئی ایک یہاں سے چلے بھی گئے ہیں، مگر بنجاریوں کی اکثریت یا تو موجود ہے، یا اُن کے مکان موجود ہیں۔
حبیب اللہ طوطا ماما ایک پولیو زدہ خواجہ سرا جو محلہ بنجاریان اور مینگورہ کی تاریخ و ثقافت کا حصہ تھے، انتہائی نفاست پسند، انتہائی شگفتہ مزاج، فراخ دل، بالوں کی لمبی چوٹی، نسوانی لباس حسین دوشیزاؤں والی اور بزرگی میں وہی بالوں کی لٹ، صاف لمبی لہراتی چوٹی مردانہ شال میں لپٹا ہوا بدن۔
یوں تو کوئی نہیں جانتا کہ وہ ’’مانوس اجنبی کہاں سے آیا کدھر گیا‘‘، لیکن حیرت میں آج بھی لوگ بہت احترام کے ساتھ اُنھیں یاد کرتے ہیں۔ طوطا ماما کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیک پی خیل کے علاقے کے تھے۔ اُن کا کوئی رشتہ دار، کوئی سگا کسی نے کبھی نہیں دیکھا، مگر ایک خاتون اُن سے بہت کم ملنے آتی تھی۔ طوطا ماما کو اپنا ماموں کہتی تھی۔ غالباً توتانو بانڈی سے اُن خاتون کا تعلق تھا، یا وہاں اُن کی شادی ہوئی تھی۔ خود بھی خاصی عمر کی تھیں۔ طوطا ماما کو اپنی پُرہنگم مگر تنہا زندگی میں اُن کی آمد کا انتظار رہتا تھا ۔
طوطا ماما، دوست محمد خان لنگر خیل محمود خان کے مکان میں کرائے پر رہایش پذیر تھے، مگر اُن کا کرایہ برائے نام تھا۔ جب کٹائی کا موسم آتا، طوطا ماما تمبل (دف) لے کر کارکن عورتوں کے ساتھ کھیتوں میں جاتے۔ تمبل بجاتے۔ سریلی آواز میں گانا گاتے۔ اُن کی آواز دور کام کرنے والے کسانوں کو بھی گرما دیتی۔ اس طرح سردیوں کی آمد سے پہلے اُپلے بناتے وقت بھی یہی ذمے داری نبھاتے۔ یوں اُن کا کرایہ پورا ہوجاتا۔
مکان کو طوطا ماما نے خوب صورت گھر بنا دیا تھا۔ اُنھوں نے اپنی تنہائی دور کرنے کی غرض سے مرغیاں پال رکھی تھیں، جن سے وہ باتیں کرتے تھے۔ برتنوں میں لگائے خوش نما پھول اور پودے، چمڑے کی بنی ہوئی چارپائیاں، تہ پائیاں، کرسیاں، دیواروں پر سجائے پھول بوٹے۔ کوٹگئی سے ذرا آگے ان کی کائنات قائم تھی۔ وہ دائیں پاؤں سے معزور تھے۔ اُن کا پاؤں کم زور تھا۔ پولیو زدہ تھا، مگر وہ کمال کے طبلہ نواز تھے۔ مجلسوں میں جاتے، تو اُن کی طبلہ نوازی ایک کیفیت طاری کر دیتی۔
طوطا ماما ایک لوک فن کار اور اداکار کی طرح شادیوں میں فن کاری اور اداکاری کے جوہر دکھاتے۔ مینگورہ کے ایک اور نام ور اور نیک نام خواجہ سرا کے ساتھ اُن کی جوڑی بہت مشہور تھی۔ طوطا ماما ایک طرح سے ماں ہوتی اور وہ بیٹی۔ سین کچھ یوں ہوتا کہ بیٹی مٹکتے مٹکتے پانی کا گھڑا بغل میں دبائے آتی۔ ماں کی آواز آتی۔ ’’تم آج پھر اتنا دیر کیوں کر آئی ہو؟‘‘ بیٹی جواباً کہتی: ’’اماں! صرف پانی لانا نہیں ہوتا۔ کچھ نین مٹکا کرنا ہوتا ہے، کچھ وقت گزاری بھی تو کرنا ہوتی ہے۔‘‘ ماں غصہ کرتی کہتی: ’’بے حیا، سیدھی جایا کر اور سیدھی واپس آیا کر، نظر نہ اُٹھایا کر!‘‘ بیٹی بدن لہراتی اور منھ بناتی۔ ماں غصے سے مٹکا توڑ دیتی۔ یوں قہقہے بلند ہوتے۔ ہر خوشی کے موقع پر اس ڈرامے کی فرمایش ہوتی۔
زندگی بیتتی گئی۔ آخری وقت میں پورا دن گھر پر رہتے اور عصر کے وقت گھر کے باہر بیٹھ جاتے۔ ہر آتا جاتا طاطا ماما سے بات کرتا۔ اُن کو یہ کمال حاصل تھا کہ آنکھ میں پڑے کسی بھی خس کو نکال دیتے، جو کسی سے نکل نہ پاتا۔ شام کو اُن کے پاس مزدور، مستری، ترکھان، لوہار، کاریگر آتے، وہ سوئی کے گرد روئی لپٹ کر لرزتے ہاتھوں سے فوراً خس نکال دیتے۔ معاوضے کے طور پر ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق ایک روپے، دو روپے، پانچ روپے، دس روپے دے جاتا۔ اس طرح اُن کی پالی ہوئی مرغیوں کے انڈے بک جاتے۔ آخری وقت میں یہی کل کمائی تھی اُن کی، یہی ذریعۂ آمدن تھا۔
جب بیمار ہوئے، بستر مرگ پر پڑگئے، تو کسی گوالے کے ذریعے بھانجی تک پیغام پہنچایا، وہ آئی اور خاموشی سے طوطا کو اپنے ساتھ لے گئی۔ وہی خاموشی میں کہیں گمنام موت مر گئے۔ اُن کی بھانجی آئی اور مکان سے سب کچھ لے کر چلی گئی۔ چھوڑی تو یہ خبر کہ طوطا ماما کی طبیعت نہ سنبھل سکی۔ وہ فوت ہوگئے۔ وہ پیوندِ خاک ہوچکے ہیں۔ مکان کو خالی کرنا تھا، اس لیے سامان لے کر جا رہی ہوں۔
بنجاریان محلہ میں داخل ہونے سے پہلے باہر کی منظر کشی کرتے ہیں۔ ذہن پر زور ڈالتے ہیں تو ایک خاکہ سا کچھ یوں واضح ہوتا ہے کہ مین گلی کے دائیں طرف دو دُکانیں ملا کر غمے حاجی صاحب کا دفتر تھا۔ بعد میں یہاں کامرس بینک بن گیا۔ اس کے بعد سروس کی دُکان کھل گئی۔ اس کے پڑوس میں ریاض وکیل صاحب ( ولد حبیب الرحمان ولد گل نبی حاجی صاحب ) کے بھائی کے کپڑے کی دُکان تھی۔ اس کے ساتھ عثمان لالا کا دفتر تھا، جس کے باہر متین درزی بیٹھتے تھے۔ ساتھ ہی عبد الخالق درزی کی دُکان ’’قاسم ٹیلر‘‘ کے نام سے تھی۔ اس کے ساتھ کامران دادا اور چاچا کریم بخش کا دفتر تھا۔ آگے گلی تھی جہاں جلو خیل امان اللہ خان ٹھیکے دار کے دو کچے مکان تھے، جن میں کرایہ دار رہتے تھے، جن کو بعد میں ڈاکٹر مفتاح اللہ صاحب ولد حاجی غمے نے خرید لیا اور اس کی جگہ ’’ضیا مارکیٹ‘‘ تعمیر کی۔
اس گلی کے بائیں جانب خالی دُکان تھی غمے حاجی صاحب کی۔ پھر سعید بدادا کے کپڑے کی دُکان تھی۔ پھر اسلحے کی دُکان تھی۔ پھر 555 برانڈ چپل بنانے والے نسولے کی دُکان تھی۔ مسجد کی باہری دیوار جہاں اب کیبن بن گئے ہیں، پھر رشید ڈاکٹر صاحب کے بڑے بھائی حضرت ہلال کی کپڑے کی دُکان تھی۔ پھر ایک طبیب کا دواخانہ تھا۔ پھر منیر حاجی صاحب کی ہارڈوئیر کی دُکان تھی۔ پر نسوار والا، پھر اسماعیل حاجی صاحب کا خوب صورت دفتر اور بینک سکوئر کتیڑا میں صرف حبیب بینک لمیٹڈ تھا۔ باقی کوئی بینک نہیں تھا۔
گلی میں داخل ہوں، تو دائیں ہاتھ حاجی غمے حاجی صاحب کا عالی شان گھر تھا، جو 1939ء کو تکمیل کو پہنچا تھا۔ گلی کے اوپر چھت اور چھت پر بیٹھک نوجوانوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ بائیں جانب مسجد، مسجد کے ساتھ تورے باز (تورے ماما) کا مکان جو غمے حاجی صاحب کے حجرے کے آغاز میں تھا۔ یہاں حجرہ تھا جو 1950ء میں تعمیر ہوا۔ یہی فیروز ماما کا گھر تھا۔یہاں گلی مڑتی ہے۔ دائیں جانب اسی موڑ میں سامنے راجا عبد الحنان کا گھر تھا۔ یہ وہی راجا صاحب ہیں، جن کے نام کی وجہ سے موضع ’’راجا آباد‘‘ یاد کیا جاتا ہے۔ بہت مال دار اور پیسے والے آدمی تھے۔ اُن کے بڑے بچے یہی رہ گئے اور یہ چھوٹے بچوں کے ساتھ راجہ آباد چلے گئے اور پھر وہیں مقیم رہے۔
اسی گلی پر آگے بڑھتے جائیں، تو سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔ ساتھ ساتھ غمے حاجی صاحب کے گھر کی طویل فصیل چل رہی ہے اور سامنے عبدالمنان منانے بدادا کا گھر اور دیرہ ہے۔ ایک کھلی سی جگہ تھی سامنے۔ چلتے جائیں، تو تگا استاد صاحب کا گھر، تاج سوڈا واٹر تاج چوک والے کا گھر اور ایک دو گھر۔ واپس مڑ کر سیڑھیوں کی طرف آتے ہیں اور اُوپر چلتے ہیں۔ منانے بداداد کے گھر اور ڈھیرے کے ساتھ برآمدا تھا، جس کو نبجاریانو حجرہ کہتے تھے۔ نیہاں چار گلیوں کا سنگم بنتا ہے۔ چوک میں بائیں طرف ایک بڑا پتھر پڑا ہوتا تھا، جس پر لوگ بیٹھتے تھے۔ اب زاہد حسین نے وہ پتھر اٹھا کر اپنی دُکان کے آگے رکھ دیا ہے۔ بائیں طرف گلی میں عبد الخالق درزی کا گھر اور کچھ اور گھر تھے۔
واپس چوک میں آکر دائیں جانب منانے بداداد کے گھر کا پچھواڑا ، گوجرہ بے بے کا گھر جس کا بیٹا نیشنل سنٹر کی سیڑھیوں کے نیچے پکوڑے تلتا تھا۔ سامنے عطاء الرحمان تاخانے، گل احمد استاد صاحب کا گھر اور بیٹھک تھے۔ آگے جائیں، تو خلیل سرنگ ماما کا گھر تھا جہاں سے گلی دو حصوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ ڈبو جمات (مسجد)کی جانب جانے والی گلی میں گراجوں کے اوپر زرپھول ماما کا گھر تھا۔ بائیں جانب رحمانی گل ہینڈی کرافٹس والے کا گھر، ساتھ ہی ریاض وکیل صاحب کا گھر، دراصل حبیب الرحمان/ محمد رحمان حاجی صاحب کا گھر اور حجرہ اور بالکل سامنے نوشاد کاکا کا اِحاطہ جہاں گھر بھی تھا، جگہ بھی اور کاروباری متعلقہ ضروریات بھی تھیں۔ بائیں جانب جوتے سینے والے چمیار کی دُکان تھی، جو مشہور پنڑے (کھسے) بنانے تھے۔ سامنے وہی برآمدا ۔ چھوٹی گلی میں اوپر سے آ رہے ہیں۔ نیروز ماما، چرے دار بندوق کے کارتوس بنانے والے کی مخصوص جگہ تھی۔ وہ گھر میں سارا کام کرتے اور باہر آ کر بیچتے۔ نیچے الطاف حسین کپتان کا گھر تھا۔ سامنے گلی گل بشر ماما کا گھر اور پانی کا نلکا تھا۔مجیبے کے گھر سامنے تاریخی ’’کوٹگئی‘‘ تھی، جس کے متعلق اور لکھنے، بہت کچھ لکھنے اور بھرپور لکھنے کی ضرورت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔