ان دنوں ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا، خوراک، ایندھن وغیرہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکا ہے۔ ملک بھر کے عوام آٹے کے لیے اور سیاسی جماعتیں اقتدار کے لیے لائن میں لگی ہیں۔ چاروں طرف مایوسی اور بے چینی کی فضا ہے اور حالات بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صورتِ حال مزید خطرناک ہوسکتی ہے۔آئی ایم ایف پروگرام ’’ری شیڈول‘‘ ہونے کی صورت میں مزید مہنگائی کا طوفان آسکتا ہے۔ بجلی، گیس ، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مہنگائی میں گھرے عوام سوال کررہے ہیں کہ آخر انھیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
گذشتہ دنوں وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مہنگائی عروج پر ہے اور حکومت مسایل کے حل کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ انھوں نے حسبِ معمول سابق حکومت پر الزام عاید کیا ہے کہ اس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوئی ہے۔
ان دنوں حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان سنگین سیاسی کشمکش اور بیان بازی جاری ہے، لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ اس وقت پاکستان تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران میں مبتلا ہے۔ ملک کا دِوالا نکلنے کی باتیں ہورہی ہیں، جس کے بارے میں وزیرِ اعظم، وزیرِ خزانہ اور ان کے ہم خیال مسلسل تردید کررہے ہیں…… اور قوم کو یقین دلارہے ہیں کہ ہم ملک کو معاشی بحران سے نکال لیں گے۔
حزبِ اختلاف کا دعوا ہے کہ معاشی حالات کی خرابی میں تیزی موجودہ حکومت کے 8 ماہ میں آئی ہے، جب کہ حکومت کا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی چار سالہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی پابندی نہیں کی، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوسکا اور ہمیں سخت شرایط ماننا پڑ رہی ہیں۔
قارئین! اس بیان بازی سے پاکستان کا حکم ران طبقہ قومی تباہی کی ذمے داری سے بچ نہیں سکتا۔ معاشی بحران کی وجہ سے قومی سلامتی کے خطرے کے خدشات بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک دن میں نہیں ہوئی، لیکن گذشتہ 20 برسوں میں تیزی آئی ہے۔ اس کی وجوہ میں امریکی ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے دوران میں جتنے اقتصادی معاہدے ہوئے ہیں، اس میں پاکستان کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ آئی ایم ایف ایسی شرایط عاید کرتا رہا جس سے پاکستان اقتصادی طور پر کم زور ہوتا رہا۔ آئی ایم ایف سے مذاکراتی ٹیم سیاسی ہویاتکنیکی، کسی نے بھی اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ مستقبل میں آنے والے خطرات سے کس طرح بچا جائے گا؟
معاشی و اقتصادی تباہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ طویل مدت سے پاکستان کی وزارتِ خزانہ اور مرکزی بینک کے اہم ترین منصب پر ایسے پاکستانیوں کو مقرر کیا گیا، جن کی نشان دہی عالمی بینک یا آئی ایم ایف نے کی۔ آج معاشی تباہی کے حوالے سے جو مسایل ہیں جن میں ڈالر کی قیمت میں ناقابلِ تصور اضافہ اور توانائی کے مہنگے منصوبے انھی معاہدوں کا شاخسانہ ہیں۔ گردشی قرضے کا عنوان تو انھی معاہدوں کی دین ہے جس کے تحت بجلی کی پیداوار ناجایز منافع کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کردی گئی، جنھوں نے قوم کو خدمات فراہم کرنے کی بجائے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ملک اقتصادی طور پر تباہ ہوتا رہا اور ملک کی مقتدر اشرافیہ حکومتوں سے زیادہ دولت مند ہوتی رہی۔ سابق اور موجودہ حکم رانوں کے خلاف بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کی جو تفصیلات ذرایع ابلاغ میں آچکی ہیں، ان کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پہلے قوم کے سامنے یہ سوال تھا کہ ملک کو قرضوں کی زنجیر سے کیسے آزاد کیا جائے۔ اب یہ سوال قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کا پروگرام کیسے بحال کیا جائے گا؟
حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ایک دوسرے پر الزام عاید کررہے ہیں کہ اس نے آئی ایم ایف کے حکم کی خلاف ورزی کی جس کی وجہ سے آئی ایم ایف سخت شرایط عاید کررہا ہے اور عالمی اقتصادی بحران اور سیلاب کی قدرتی آفت، کورونا وبا کے اثرات کے باوجود بھی کسی رحم کا مظاہرہ نہیں کررہا۔ اس بہانے سے وہ جواز پیدا کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرایط تو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ تا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کی کوئی مزاحمت نہ کی جائے۔ معاشی مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگار مزید سخت حالات سے خبردار کررہے ہیں۔
اس حوالے سے ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں کی جارہی ہیں جو ایسے ماہرین پر مشتمل ہو، جو عوام سے نمایشی ہم دردی بھی نہ رکھتے ہوں اور پاکستان کے شہریوں پر مہنگائی، افلاس اور بے روزگاری کے کوڑے برسا سکیں۔ بلاشبہ اگر ہماری حکومت، مقتدر ادارے اور سیاسی شخصیات خلوصِ نیت سے ملکی ترقی اور استحکام کے لیے اپنے اپنے دایرۂ کار میں سادگی، صداقت، امانت اور دیانت کا پاس رکھتے ہوئے محنت، جد و جہد اور کوشش کریں،تو اس بحران پر قابو پانا کوئی مشکل نہیں۔ جو ممالک ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ہیں…… ان کی حکومت اور قوم نے اپنا مقصد، نصب العین اور رُخ ایک متعین کرکے محنت اور کوشش کی، تو وہ منزلِ مقصود اور مراد تک پہنچ سکے۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم سب ملکی ترقی کے لیے یہ کام کریں۔
اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل بیٹھ کر ’’میثاقِ معیشت‘‘ ترتیب دیں، اور یقینی بنائیں کہ کسی بھی پارٹی کی حکومت آجائے میثاقِ معیشت پر کام جاری رہے گا۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔