عام طور پر ’’موچھ‘‘ (ہندی، اسمِ مونث) کا املا ’’مونچھ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
اردو کے مستند ترین لغات ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘ اور ’’نوراللغات‘‘ کے ساتھ ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ اور ’’جدید اُردو لغت‘‘ میں املا ’’موچھ‘‘ کے ساتھ ’’مونچھ‘‘ بھی درج ہے مگر ترجیح ’’موچھ‘‘ کو دی گئی ہے۔ نیز جتنے بھی محاورات ہیں ان میں ’’موچھ‘‘ درج ہے جیسے ’’موچھوں کو تاو دینا‘‘، ’’موچھوں پر ہاتھ پھیرنا‘‘، ’’موچھوں سے چنگاریاں نکلنا‘‘، ’’موچھیں اکھڑوا دینا‘‘، ’’موچھیں منڈوانا‘‘ وغیرہ۔ اس طرح جملہ متعلقات جیسے ’’موچھ کا بال‘‘، ’’موچھ مروڑا‘‘، ’’موچھ منڈا‘‘ میں املا ’’موچھ‘‘ ہی ہے نہ کہ ’’مونچھ‘‘۔
’’موچھ‘‘ کے معنی ’’ہونٹوں کے اوپر کے بال‘‘ یا ’’بروت‘‘ کے ہیں۔
البتہ جہانگیر اُردو لغت (جدید) میں صرف ’’مونچھ‘‘ املا درج ہے۔
اس حوالے سے رشید حسن خان نے اپنی کتاب ’’اُردو املا‘‘(مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، سنہ اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 236 پر ان الفاظ میں صراحت کی ہے: ’’موچھ، مچھندر: آصفیہ میں ’م و چھ‘ کی فصل میں موچھ یا مونچھ لکھا ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کی دو صورتیں ہیں، مگر اس کے جملہ متعلقات کو نون کے بغیر لکھا گیا ہے، جیسے: موچھ کا بال، موچھ منڈا، موچھوں کو تاو دینا، وغیرہ۔ اس طرح اس کی جمع ’موچھیں‘ لکھی ہے۔ آگے چل کر ’م و ن‘ کے تحت ’مونچھ‘ لکھ کر لکھا ہے: ’دیکھو موچھ‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ مولف کے نزدیک مرجح لفظ نون کے بغیر ہے۔ بالکل یہی صورت نور میں ہے۔ مچھندر دونوں لغات میں نون کے بغیر ہے۔ سماعت میں یہ لفظ دونوں طرح ہے۔ ترجیح کے لیے اس کا املا نون کے بغیر مان لینا چاہیے (موچھ، مچھندر)۔ مولفینِ آصفیہ و نور کا رجحان بھی اِسی طرف تھا۔‘‘
صاحبِ نور نے انشاؔ، بحرؔ اور ظفرؔ کے جتنے اشعار حوالتاً درج کیے ہیں، ان میں سے ایک کا بھی املا ’’مونچھ‘‘ درج نہیں ملتا۔
اس طرح صاحبِ آصفیہ نے دو استاد شعرا انشاؔ اور بحرؔ کے اشعار کا حوالہ دیا ہے جن میں بھی املا ’’موچھ‘‘ ہی درج ہے۔
سرِ دست حضرتِ بحرؔکا یہ خوب صورت شعر ملاحظہ ہو:
تاو موچھوں پہ دیا کرتے ہیں زاہد کے حضور
تیری رحمت پہ یہ رکھتے ہیں گنہگار گھمنڈ