تحریر: شعیب علوی 
مولانا شبلی نعمانی کی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ مولانا ابوالکلام آزاد سے روایت کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ عبدالرزاق ملیح آبادی نے اپنی کتاب ’’ذکرِ آزاد‘‘ میں نقل کر رکھا ہے۔
جیل میں ایک دن مولاناابوالکلام آزاد نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دل چسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے۔ حسن پرست بھی تھے اور موسیقی سمیت تمام فنونِ لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے، مگر مولوی تھے۔ عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔
ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے: آج میرے ہاں قوالی ہے۔ دہلی کی ایک مشہور طوائف…… (مَیں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے۔ میرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔
مولانا شبلی نے دعوت قبول کرلی۔ کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔
واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا۔ قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پاکر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔
طوائف کا طبلچی ایک لحیم شحیم سن رسیدہ آدمی تھا۔ سر پر پٹے تھے اور منھ پر چوکور بڑی سی داڑھی، پٹے اور داڑھی خضاب سے بھونرا ہو رہے تھے۔ محفل جب برخاست ہونے لگی، تو طبلچی دونوں ہاتھ بڑھائے مولانا کی طرف لپکا اور بڑے جوش سے مولانا کے ہاتھ پکڑ لیے، چومے، آنکھوں سے لگائے اور جوش سے کہنے لگا، کس منھ سے خدا کا شکر ادا کروں کہ عمر بھر کی آرزو آج پوری ہوئی۔ مولانا! سبحان اللہ، ماشاء اللہ، آپ نے الفاروق لکھ کر وہ کام کیا ہے، جو نہ کسی سے ہوا نہ ہوسکے گا۔ بخدا……! آپ نے قلم توڑ دیا ہے۔ بندے کی کتنی تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو۔ سو آج بائی جی اور خواجہ صاحب کی بدولت یہ سعادت اس گنہگار کو نصیب ہوگئی۔
مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے۔ اس غیر متوقع واقعے نے اُن کی ساری خوشی کِرکِری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہوگئے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں، طبلچی کو کیا جواب دیں، کس طرح محفل سے غائب ہوجائیں؟
یوں بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا، مگر علامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا۔ ہفتوں شگفتہ نہ ہوسکے۔
مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علامہ شبلی نے اُن سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے: ’’کاش……! الفاروق میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی، اور نکلی تھی، تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا۔ یہ نہیں تو مجھے موت آگئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔