نفسیات کی رُو سے جو شخص اپنی کسی خوبی کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے اور ہر وقت اُس خوبی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے، دراصل اُس کی شخصیت میں اُس خوبی کی کمی ہوتی ہے۔ وہ بار بار اپنی شخصیت میں ناموجود خوبی کا ذکر کرکے نہ صرف اپنے احساسِ کم تری کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، بلکہ اپنے آپ کو جھوٹی تسلی بھی دے رہا ہوتا ہے کہ ’’مَیں تو شیر ہوں!‘‘
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
بعض لوگوں کے اندر کوئی نفسیاتی خوف بیٹھ جاتا ہے اور وہ چاہ کر بھی تمام عمر اُس خوف سے نکل نہیں پاتے۔ مثلاً پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ایک عجیب خوف ہے کہ اگر انھیں کمرے میں بند کرکے باہر سے دروازے کو کنڈی لگا دی جائے، تو اُن کا دم گھٹ جائے گا۔ اس کا اظہار انھوں نے ایک مرتبہ خود ایک صحافی سے کیا تھا۔ انھوں نے بتایا تھا کہ جب پرویز مشرف نے انھیں ایک ہفتے کے لیے جیل بھیجا تھا، تو اُن کی حالت غیر ہوگئی تھی۔ رات کو جب جیل کے محافظ دروازہ بند کرتے، تو انھیں یوں لگتا جیسے اُن کا دم گھٹ جائے گا۔ وہ چیخنے لگتے تھے۔
عمران خان کو اُس قید سے تیسرے روز رہائی مل گئی تھی، مگر یہ سہ روزہ تجربہ عمران خان کے لیے ایسی نفسیاتی گرہ بن گیا ہے، جو کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
جیل جانا سیاست دانوں کے لیے معمول کی بات ہے۔ خود عمران خان نے اپنی مخالف سیاسی لیڈرشپ کو جیلوں میں پھینکوا دیا تھا، یہاں تک کہ اُن کی خواتین کو جیلوں میں بھیجنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا۔ مریم نواز شریف اور فریال تال پور صاحبہ کو بھی پابندِ سلاسل کروا کر اپنی انا کو تسکین دی تھی، مگر اُن کا اپنا یہ حال ہے کہ جیل کے نام سے ہی اُن کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ اُن کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگتی ہیں اور وہ فوراً اپنے کارکنوں کو اپنے گرد اکٹھا کرلیتے ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت کو عمران خان کے اس نفسیاتی خوف کا پتا چل چکا ہے۔ اُن کے سیاسی مخالفین عمران خان کے اِس نفسیاتی خوف سے پوری طرح کھیل رہے ہیں۔ ہر روز اُن کی گرفتاری کا شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ خوف زدہ ہو کر اپنے کارکنان کو فوراً زمان پارک پہنچنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ باقی کام پی ٹی آئی کے ورکر پورا کر دیتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہوکر اپنے لیڈر کو مزید خوف و دہشت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اِس ساری صورتِ حال نے عمران خان کو نفسیاتی مریض بنا کر اُن پر گرفتاری اور موت کی دہشت طاری کردی ہے۔ پچھلے دنوں انھوں نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی کہ پنجاب پولیس عید کی چھٹیوں میں انھیں گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ یہ پٹیشن عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر خارج کی، تو عمران خان کے خوف میں مزید اضافہ ہوگیا اور انھوں نے ایڈوکیٹ اظہر صدیق کی وساطت سے بشرا بیگم کی جانب سے مفروضے پر مبنی یہی پٹیشن لاہور ہائی کورٹ میں دوبارہ دائر کروا دی۔ فاضل جج صاحب اس پر سخت برہم ہوئے اور انھوں نے عدالت کا وقت ضائع کرنے پر وکیل اظہر صدیق پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے یہ رِٹ بھی خارج کر دی۔
عمران خان کو گرفتاری کے بعد اب موت کے خوف نے اپنے شکنجے میں بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔ کبھی وہ وزیر آباد واقعہ کسی سنائپر کی کارروائی قرار دے کر ہائی پروفائل شخصیات کو اس میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی یہ بتاتے ہیں کہ اُن کے اپنے ہسپتال میں انھیں ڈرپ کے ذریعے زہر دینے کی کوشش کی گئی۔ وہ جاسوسی ناولوں میں پیش کیے گئے قتل کے مختلف طریقوں کو اپنی ذات پر فِٹ کرکے میڈیا کے سامنے خود کو ڈرا رہے ہوتے ہیں، تو کبھی ’’سلو پوائزننگ‘‘ کی اقسام پر لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔
اب تو حالات یہاں تک آ پہنچے ہیں کہ عمران خان عدالت میں پیش ہوتے وقت بلٹ پروف شیلڈوں اور آہنی بالٹی کا سہارا لینے پر مجبور ہیں کہ انھیں موت کا خوف ہے۔ وہ بلٹ پروف سٹیج اور بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے، تو سب کی ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ حکومت اُن کی اس کم زوری سے بھی خوب فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ وہ جب بھی باہر نکلنے کا قصد کرتے ہیں، حکومت اُن کی جان کے لیے ’’تھریٹ الرٹ‘‘ جاری کر دیتی ہے اور یوں عوام کے محبوب لیڈر عوام میں موجود رہ کر بھی اُن سے دور رہتے ہیں کہ ’’جان ہے تو جہان ہے!‘‘ لگتا نہیں کہ خان صاحب اپنے اس خوف کی بنا پر آنے والے انتخابی مہم کی قیادت کر پائیں گے۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین نے انھیں جان جانے کے خوف سے اس حد تک دہشت زدہ کر دیا ہے کہ وہ اپنی ہر تقریر میں اپنے قتل کی کسی سازش یا تھیوری کا ذکر کرنے لگے ہیں۔ موت سے زیادہ موت کا خوف دہشت ناک ہوتا ہے۔ عمران خان اس خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔ انھیں کسی ماہرِ نفسیات کی خدمات حاصل کر کے اس خوف سے نکلنا ہو گا، ورنہ خدا نخواستہ ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ وہ شاہ محمودقریشی، اسد عمر، فواد چوہدری یا پرویز خٹک جیسے مخلص کارکنوں کو بھی اپنی جان کا دشمن سمجھ کر قریب نہ آنے دیں۔
ایک بار پھر کہوں گا کہ اُن کے سیاسی مخالفین نے اُن کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی بجائے انھیں خوف اور دہشت میں مبتلا کرنے کی کامیاب نفسیاتی چال چل کر انھیں ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔ انسانی جسم کا یہ خاصا ہے کہ ذہن میں جو بات بھی بیٹھ جائے، جسم اس کے مطابق ردِعمل دیتا ہے، حالات خواہ موفق ہوں یا نہ ہوں۔
امریکہ میں سزائے موت کے مجرموں کو زہریلے سانپ سے ڈسوا کر سزا پر عمل درآمد کا رواج ہوا کرتا تھا۔ انسانی دماغ پر غالب خیال کے تحت دماغ کے احکامات اور ان پر جسمانی ردِ عمل جاننے کے لیے ایک سزائے موت کے قیدی پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ قیدی کو کرسی کے ساتھ باندھ کر اس کی آنکھیں ڈھانپ دی گئیں۔ اُسے سانپ سے ڈسوانے کی بجائے قیدی کی پنڈلی میں دو سوئیاں تھوڑی سی چبھو دی گئیں۔ قیدی سمجھا اُسے سانپ نے ڈس لیا ہے۔ وہ وہیں پر تڑپ تڑپ کر مرگیا۔ بعد ازاں اُس قیدی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی ثابت ہوگیا کہ اُس کی موت سانپ کے ڈسنے سے ہوئی تھی۔ کیوں کہ اُس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اُسے سانپ نے ڈسا ہے۔ جسم نے بھی اس کے مطابق ردِعمل دیتے ہوئے سچ مچ وہ زہر اپنے اندر پیدا کر دیا تھا۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین بہت سیانے ہیں۔ وہ اُن پر گرفتاری اور موت کا خوف طاری کرکے ڈپریشن میں مبتلا کرچکے ہیں۔ انھیں گرفتار کرنا کسی کی خواہش ہے ہی نہیں۔ اگر گرفتار کرنا ہوتا، تو حکومت سے کون ٹکرا سکتا ہے؟ اگر ان کے ورکرز یہ سمجھتے ہیں کہ خان کو گرفتاری سے انھوں نے روکا ہوا ہے، تو اُن سے زیادہ بھولا کوئی نہیں۔ خان کے سیاسی مخالفین انھیں مسلسل خوف کی حالت میں رکھنا چاہتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب ہیں۔ عمران خان شدید ڈپریشن کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی لیے وہ ایک دن ایک بیان دیتے ہیں اور دوسرے دن اس بیان کی نفی کرتے ہوئے نیا بیان جاری کر دیتے ہیں۔ اُن کے ملزم بھی آئے روز بدلتے رہتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔