اردو کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ایک ریستوران میں چائے پینے گئے۔ چائے بناتے وقت کیتلی ان کے ہاتھ سے گر کے ٹوٹ گئی۔ بیرا ساڑھے چار روپے کا بِل لایا۔ 8 آنے چائے کے اور 4 روپے کراکری کے۔منٹو نے خاموشی سے بِل ادا کر دیا۔
دوسرے دن وہ پھر اسی ریستوران میں چائے پینے گئے۔ ابھی وہ چائے پی ہی رہے تھے کہ ایک دم شور ہوا ’’سانپ، سانپ!‘‘ ریستوران میں بھگدڑ مچ گئی۔ میزیں الٹ گئیں اور برتن ٹوٹ گئے۔ لوگ باہر بھاگنے لگے۔ بیروں نے کسی نہ کسی طرح سانپ کو مار ڈالا۔ جب بیرا منٹو کے پاس بِل لایا، تو وہ صرف 8آنے کا تھا۔ منٹو نے اس سے پوچھا: ’’کیوں بھئی، آج آپ نے اس میں کراکری کی قیمت نہیں لگائی!‘‘ بیرے نے جواباً کہا، ’’صاحب، اس میں آپ کا کیا قصور ہے؟ کراکری تو سانپ کی وجہ سے ٹوٹی ہے۔
منٹو نے بِل ادا کرتے ہوئے قدرے ناگواری سے کہا: ’’مگر مجھے تو کوئی بچت نہ ہوئی۔ سانپ چار روپے میں خرید کر لایا تھا۔‘‘
(ڈاکٹر علی محمد خان کی کتاب ’’کِشتِ زعفران‘‘ مطبوعہ ’’الفیصل‘‘ پہلی اشاعت فروری 2009ء، صفحہ نمبر 156 سے انتخاب)