منیر احمد قریشی جو منو بھائی کے نام سے مشہور ہیں، اُن سے تعلق بنا، تو پھر عمر اور رتبے کے بغیر ایسا مضبوط اور پائیدار تعلق بن گیا، جو دوستی میں تبدیل ہوگیا۔
یہ کوئی آج سے 17سال قبل کی بات ہے، جب میرا دفتر چوک چوبر جی میں ہوا کرتا تھا۔ شام کے وقت منو بھائی کے گھر کے پاس پارک میں چہل قدمی کے لیے جایا کرتا۔ جاتے جاتے اکثر منو بھائی کے گھراُن سے ملنے بھی چلا جاتا۔ پہلے پہل تو ہماری واجبی سی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ سلام دعا اور حال چال پوچھنے کے بعد میں وہاں سے آگے پارک میں چلا جاتا۔ پھر یہ ملاقاتیں چائے پینے تک محدود رہیں، لیکن اس کے بعد جو منو بھائی سے تعلق بنا، وہ قابلِ رشک رہا ہر روز نہیں، تو دوسرے تیسرے دن مَیں اُن کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا چائے کے ساتھ ساتھ گپ شپ ضرور کرتا۔ جب کبھی ایک ہفتہ یا کچھ دن زیادہ اُن سے ملاقات کے لیے نہ جاتا، تو پھر اُن کا ٹیلی فون آجاتا کہ کدھر ہو، چکر نہیں لگا بہت دنوں سے، خیریت تو ہے؟ اُس کے بعد مَیں اُن کے گھر چلا جاتا اور پھر ہم دونوں ڈھیروں باتیں کرتے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
منو بھائی کے اندر ایک معصوم انسان چھپا ہوا تھا۔ ویسے بھی وہ شکل سے معصوم ہی لگتے تھے۔ جنگ میں اُن کا کالم گریبان تواتر سے شائع ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی ان سے ملنے کی خواہش بھی ہوتی تھی۔ ایک بات جو مَیں اکثر دیکھا کرتا تھا کہ ان کے دروازے پر آنے والا کوئی بھی سائل خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹتا تھا۔
منو بھائی 6 فروری 1933ء کو وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ تعلیم گورنمنٹ کالج اٹک سے مکمل کی۔ اپنے کیرئیر کا آغاز اُردو زبان کے ایک اخبار میں بطورِ مترجم کیا۔ بعد میں ڈراما نگار بن گئے۔ آج تک کا سب سے مشہور ٹی وی ڈراما ’’سوناچاندی‘‘ ہے، جو 1982ء میں ریلیز ہوا تھا۔ اُنھوں نے ’’آشیانہ‘‘ اور ’’دشت‘‘ جیسے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
منو بھائی کی یاد میں  
منو بھائی کا یومِ انتقال  
دلدار پرویز بھٹی کی یاد میں  
ڈاکٹر طارق سلیم مروت کی یاد میں  
محشرؔ لکھنوی کی یاد میں 
منو بھائی کی شاعری بھی کمال کی ہے۔ اُن کی پنجابی اور اُردو میں خوب صورت شاعری سننے والے کی اپنی ہی کہانی محسوس ہوتی ہے۔
منو بھائی نے پاکستانی ٹیلی وِژن کی تاریخ کے یادگار ڈرامے تحریر کیے، جنھیں آج بھی اُتنی ہی مقبولیت حاصل ہے، جتنی اُس دور میں ہوا کرتی تھی۔ پاکستان کے سب سے نمایاں اور مستقل مزاج مصنفین میں سے ایک رہے ہیں۔ طویل ڈرامے بھی تحریر کیے۔ ’’گم شدہ‘‘ اور ’’خوب صورت‘‘ جیسے بے حد تفریحی ڈرامے پیش کیے، جنھیں ناظرین نے خوب پذیرائی بخشی اور ناقدین کی جانب سے مثبت تبصرے بھی حاصل کیے۔
منو بھائی ننے ایک اور معروف ڈراما سیریل ’’آشیانہ‘‘ بھی لکھا تھا، جس کی خاصیت اس کے خوش کن اور پُرامید پلاٹ کے ساتھ ساتھ خاندانی اقدار کو اُجاگر کرنے کے لیے بھی تھی۔ اُن کا ڈراما سیریل ’’دشت‘‘ اُن کے شان دار کاموں میں سے ایک تھا، جس میں طرزِ زندگی اور ثقافتی روایات کے ساتھ ساتھ گوادر اور بلوچستان میں مقیم بلوچی قبائل کی پس ماندگی کو بھی پیش کیا گیا تھا۔ اُن کی پنجابی شاعری کو حالیہ پنجابی ادب اور شاعری کی بہترین تخلیقات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
2014ء میں منو بھائی نے اپنی ذاتی لائبریری گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو ڈرامے اور ادب کے فروغ میں ان کے تعاون کے لیے عطیہ کردی تھی۔
2007ء میں صدرِ پاکستان نے قوم کے لیے اُن کی خدمات پر پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔اُن کی نمایاں ادبی خدمات پر 23 مارچ 2018ء کو ہلالِ امتیاز (کریسنٹ آف ایکسیلنس) ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ تھیلی سیمیا کے مریض بچوں کے لیے سندس فاؤنڈیشن بنائی، جسے آج کل سہیل وڑائچ صاحب دیکھ رہے ہیں۔
منو بھائی کا انتقال 19 جنوری 2018ء کو 84 سال کی عمر میں ہوا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔