جب مغل نے پختونوں میں اختلاف پیدا کرنے کا عمل شروع کیا اور مندنڑ قبائل کی اکثریت نے ’’روخانی تحریک‘‘ کی حمایت کر دی، تو ڈھیر سارے پختونوں نے بھی مغل اور اخوند درویزہ کی حمایت کر دی۔ نتیجتاً یوسف زیٔ پختون باہم دست و گریباں ہوئے اور یہی مغل شہنشاہ اکبر چاہتا تھا۔ اُس دور میں کئی مخلص پختون یہ تمام تر عمل دیکھ رہے تھے، مگر ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تھا۔ ان ذکر شدہ مخلص پختونوں میں ایک ’’ملک کالو خان‘‘ بھی تھا۔

شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر

مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر

ملک کالو خان نے علی خان ولد مبارک خان کے ہاں آنکھ کھولی۔ اس کا تعلق یوسف زئی قبیلہ سے تھا۔ ڈاکٹر محمد ہمایوں ہماؔ پختو زبان میں شائع ہونے والے ماہنامہ لیکوال پشاور میں ملک کالو خان کے حوالے سے اپنے ایک مضمون ’’کالو خان، قامی اتل کہ شوکمار؟‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’کالو خان کا قد لمبا اور رنگت گوری تھی۔ وہ پختونوں کا روایتی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔ جب آپ پیدا ہوئے، تو آپ کی بہتر صحت کو دیکھتے ہوئے عزیز و اقارب نے آپ کا نام ’’کالو خان‘‘ رکھ دیا اور آگے جاکر آپ کو اسی نام سے پکارا جانے لگا۔‘‘
ڈاکٹر محمد ہمایوں ہماؔ، اپنے شائع شدہ مضمون میں ملک کالو خان کے نام کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ ’’میں اسم ’کالو‘ کو رنگت کے معنوں میں نہیں بلکہ خوبصورتی کے معنوں میں لیتا ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ پختو زبان میں اگر اسم ’’کالو‘‘ کو واوِ معروف سے پڑھا جائے، تو اس کے معنی ’’کالا کلوٹا‘‘ کے بنتے ہیں اور اگر اس کو واوِ مجہول سے پڑھا جائے، تو اس کے معنی زیورات یا زیب و زینت کی دیگر اشیا کے بنتے ہیں۔
اللہ بخش یوسفی اپنی کتاب ’’یوسف زے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب صوابی ٹوپی باڑہ کے مقام پر روخانیوں نے شکست کھالی، اور ایک فیصلہ کن لڑائی ختم ہوئی، جس میں پیر روخان کے بیٹے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پیر روخان کا صرف ایک بیٹا جلالہ زندہ رہ گیا جسے مغل نے قید کر دیا۔ مغل نے اس علاقہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس افراتفری کے عالم میں ملک کالو خان اٹھا اور دوبارہ یوسف زئی قبائل کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ملک کالو خان نے ایک جرگہ ترتیب دیا اور یوسف زئیوں کے تمام علاقوں کے دورے کئے۔ اس حوالہ سے ملک کالو خان کی ایک ہی کوشش ہوتی، وہ جہاں بھی جاتے، یوسف زئیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے کہ پختونوں کو آپس میں لڑانا مغلوں کی سازش ہے۔ یوں بہت جلد ملک کالوخان کی کوششیں رنگ لائیں اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔

پیر روخان

جب یوسف زئی پختون مغل کی سازشوں کو جان گئے، تو انہوں نے مغل کے اُن ایجنٹوں کو اپنے علاقوں سے نکال باہر کیا جنہوں نے ’’روخانی تحریک‘‘ کو ختم کرنے میں معاونت کی تھی۔ تمام یوسف زئی پختونوں نے باہمی مشاورت سے ان کو اپنا راہنما مقرر کرلیا۔ یوں ملک کالو خان یوسف زئی قوم کے مشر مقرر ہوئے۔
ملک کالو خان کو مغل کی سازشوں کا بخوبی علم تھا۔ نتیجتاً اس نے بھی مغل کی کھل کر مخالفت شروع کی۔ یہ دراصل وہ مخالفت تھی جو ’’روخانی تحریک‘‘ کے پیروکار بھی کرتے تھے۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یوں روخانی تحریک نے ایک نیا روپ دھار لیا۔
مختلف حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ اخوند درویزہ نے مغل شہنشاہ اکبر کو یوسف زئیوں کے جرگوں کے حوالے سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر محمد ہمایوں ہماؔ کی تحقیق کے مطابق ’’اخوند درویزہ نے ملک کالو خان کے حوالہ سے مغل بادشاہ اکبر کو بطورِ خاص بتایا کہ وہ ایک کھرا مسلمان ہے لیکن ہماری ایک نہیں مانتا۔ اخوند درویزہ کا مطلب تھا کہ ملک کالو خان ہر وقت مغل سلطنت کے ساتھ برسرپیکار رہتا ہے اور شہنشاہ اکبر کی فرمانبرداری نہیں کرتا۔‘‘
کالو خان کی لیاقت، سیادت اور قیادت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے علاقائی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے پانی کے ذخائر کا ایک زبردست طریقے سے اہتمام کیا۔ ڈاکٹر ہمایوں ہماؔ لکھتے ہیں: ’’آج بھی صوابی کے علاقہ میں اس کے نام پر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے کئی چھوٹے بڑے تالاب مل سکتے ہیں جن میں ایک کو آج بھی ’’کالو ڈنڈ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘
اللہ بخش یوسفی کی تحقیق کے مطابق اخوند درویزہ نے شہنشاہ اکبر کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ آنے والے دور میں ملک کالو خان مغل شہنشاہیت کے لئے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں شہنشاہ اکبر نے ایک جرگہ نوشہرہ کے علاقے میں بلوایا۔ جرگہ ختم ہونے کے بعد شہنشاہ اکبر نے دیگر شرکا کو جانے کا حکم دیا جبکہ ملک کالو خان کو اپنے ساتھ آگرہ لے گیا۔ شہنشاہ اکبر نے ملک کالو خان کو اس موقعہ پر بڑی عزت بخشی مگر اسے واپس جانے کی اجازت نہیں دی، مگر مستند تاریخی حوالوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ ملک کالو خان کو سیاسی نظر بند کیا گیا تھا۔ ایک دن جیسے ہی ملک کالو خان کو موقعہ ملا، تو وہ قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، لیکن بدقسمتی سے اٹک کے علاقہ میں شمس الدین خان خانی کے ہاتھوں ایک بار پھر گرفتار ہوا۔ شمس الدین خان خانی نے اسے واپس شہنشاہ اکبر کے حوالے کر دیا، جہاں اُسے ایک بار پھر نظر بند کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ملک کالو خان ایک بار پھر فرار ہونے اور اپنے علاقے اور قبیلے تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔
سواستو آرٹ اینڈ کلچر کے روح رواں عثمان اولس یار کے مطابق: ’’ملک کالو خان جب نظر بند تھے، تو اس دوران میں یوسف زئی قبائل نے جرگہ بلا کر متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ہمارا مشر ملک کالو خان ہوگا اور آپ کی رہنمائی میں آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ مذکورہ جرگے اور ملک کالو خان کو مشر گرداننے کی روداد کسی طریقے سے ملک کالو خان تک اس وقت پہنچائی گئی جب وہ ابھی نظر بند تھے۔‘‘
اللہ بخش یوسفی کی تحقیق کے مطابق ملک کالو خان کے فرار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں یہ پتا تھا کہ مجھ سے پہلے مستری خان کو افغانستان میں دھوکے سے مارا جا چکا ہے اور یہی صورتحال میرے ساتھ بھی پیش آسکتی ہے۔ دوسری طرف شہنشاہ اکبر جب اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوا، تو اس نے فیصلہ کیا کہ یوسف زئی پختونوں کو پوری طاقت لگا کر ختم کیا جائے۔ ملک کالو خان بھی شہنشاہ اکبر کے ارادوں سے غافل نہیں تھا۔ وہ بھی ساتھ ساتھ لشکر کو منظم کرنے اور تمام پختونوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی دوڑ دھوپ میں مصروف تھا۔ شہنشاہ اکبر نے یوسف زئیوں کو ختم کرنے کے لئے طاقت یکجا کرنے کا عمل شروع کیا، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ یوسف زئی، مرزا الغ بیگ کے دور سے مغل سلطنت کے ساتھ برسرِ پیکار تھے۔ یہ وہی یوسف زئی تھے جن کے ہاتھوں ہندوستان اور افغانستان کا درمیانی راستہ جو جی ٹی روڈ کے نام سے مشہور ہے، ہر وخت مغل کے لئے خطرے سے بھرپور رہتا تھا۔ شہنشاہ اکبر اور اس کے بھائی مرزا حکیم کے درمیان جو لڑائیاں جاری تھیں، ان میں بھی یوسف زئی بالعموم اور ملک کالو خان بالخصوص مرزا حکیم کے حامی تھے۔ اس وجہ سے بھی ملک کالو خان، شہنشاہ اکبر کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا۔
مختلف تفاصیل سے پتا چلتا ہے کہ یوسف زئیوں کے خلاف جنگ لڑنے کا جواز گڑنے کی خاطر شہنشاہ اکبر نے مہمند، خلیل اور خٹک قبیلے کے کچھ افراد پر ایک درخواست لکھی کہ ہم یوسف زئیوں سے عاجز آچکے ہیں۔ یہ لوگ ہمیں شاہراہ پر نہیں چھوڑتے۔ اس دور میں میدانی اور پہاڑی دونوں علاقوں پر یوسف زئی قابض تھے۔ بالآخر شہنشاہ اکبر نے طبلِ جنگ بجا دیا۔ مغل افواج کا ایک دستہ چکدرہ، دوسرا سدم اور تیسرا صوابی کی طرف سے روانہ ہوا۔
اللہ بخش یوسفی کی تحقیق کے مطابق پہلے حملے میں شہنشاہ اکبر کی فوج کے سپہ سالار زین خان کو تھوڑی بہت کامیابی ملی، لیکن بعد میں یوسف زئی ایسے بے جگری سے لڑے کہ زین خان کو لڑائی روکنا پڑی۔ اس موقعہ پر زین خان نے شہنشاہ اکبر سے تازہ کمک بھیجنے کی درخواست بھی کی۔ شہنشاہ اکبر دورانِ جنگ اٹک کے قلعہ میں قیام پذیر تھا۔ اُس نے تازہ فوجی دستہ راجا بیربل اور حکیم ابوالفتح کی سرکردگی میں بھجوا دیا۔ اس فوج کا مرکزی سپہ سالار راجا بیربل تھا جبکہ دوسری طرف زین خان اور حکیم ابوالفتح بھی مذکورہ فوج کی سرکردگی میں پیش پیش تھے۔

شہنشاہ اکبر اور راجا بیربل

یوسف زئی، شہنشاہ اکبر کی فوج کا ہر محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کر رہے تھے۔ ایک موقعہ پر یوسف زئیوں نے شہنشاہ اکبر کی فوج کو گھیرے میں لے لیا اور ان پر نشانے لے لے کر تیروں اور پتھروں کے ایسے وار کئے کہ شہنشاہ اکبر کی فوج پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی۔ یہ لڑائی شام کے سائے گہرے ہونے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ راجا بیربل نے سوچا کہ آدھی رات کو کہیں یوسف زئی ایک بار پھر دھاوا نہ بول دیں، اس لئے اپنے ساتھیوں زین خان اور حکیم ابوالفتح سے مشورہ کئے بغیر وہ پہاڑوں کی طرف نکل پڑا۔ راجا بیربل کو گمان تھا کہ وہاں پر یوسف زئی نہیں ہوں گے، لیکن معاملہ برعکس نکلا۔ یوسف زئیوں نے جنگی حکمت عملی کے پیش نظر پہلے سے وہاں اچھا خاصا بندوبست کر رکھا تھا۔ جیسے ہی راجا بیربل کا لشکر پہاڑوں میں داخل ہوا، تو یوسف زئی فوج اس پر ٹوٹ پڑی اور راجا بیربل کی سرکردگی میں لڑنے والی شہنشاہ اکبر کی فوج کو دھول چٹائی۔ انجامِ کار بیربل اپنے قریبی ساتھیوں اور کیل کانٹے سے درست لشکر سمیت مارا گیا۔
اللہ بخش یوسفی تحریر کرتے ہیں کہ ’’یہ اتنی خونریز جھڑپ تھی کہ اس کے خاتمے پر راجا بیربل کی لاش تک نہ مل سکی۔ مقامی روایات سے پتا چلتا ہے کہ راجا بیربل کو ملندریٔ امبیلہ کے مقام پر پہاڑوں کے درمیان موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔‘‘
اسی رات زین خان اور ابوالفتح کے لشکر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ لڑائی تمام رات لڑی گئی تھی۔ اس موقعہ پر زین خان اور ابولفتح مع لشکر ملندریٔ کے پہاڑ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے لیکن یوسف زئی بھی ان کے ساتھ سائے کی طرح چمٹ گئے تھے۔ اگلے روز دن بھر لڑائی جاری رہی۔ دن کی روشنی میں مغل فوج متحد تھی لیکن جیسے ہی شام کے سائے گہرے ہونے لگے، افواہ پھیل گئی کہ یوسف زئی ایک بار پھر شہنشاہ اکبر کی فوج پر دھاوا بولنے والے ہیں۔ افواہ پھیلنے کی دیر تھی کہ مغل فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔ موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوسف زئی فوج نے واقعی حملہ کر دیا اور مغل فوج کی درگت بنائی۔ زین خان اور ابوالفتح کچھ سپاہیوں کے ساتھ بمشکل شاہی کیمپ اٹک تک بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ واقعات 1586ء کو پیش آئے۔ مغل یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ اس جنگ میں ان کے آٹھ ہزار سپاہی قتل ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف غیر جانبدار مؤرخین یہ تعداد چالیس ہزار تک بتاتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ شہنشاہ اکبر بیربل کی موت پر اتنا افسردہ تھا کہ دو روز تک اس نے کچھ کھانے پینے کو ترجیح دی اور نہ زین اور ابوالفتح کے ساتھ بات چیت تک کو گوارا کیا۔

………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔