معاشرہ ایسی اکائیوں سے جُڑ کے بنتا ہے جن کی انفرادی کوششوں کا ثمر جب اجتماعی صورت میں سامنے آنا شروع ہوتا ہے، تو معاشرہ مثبت رجحانات پانا شروع کر دیتا ہے اور ترقی کے زینے طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔
پاکستان میں ایک عجیب روش پچھلی کچھ دہائیوں میں پروان چڑھی ہے کہ یہاں کے باسی انفرادی حیثیت میں اپنے وطن پہ اعتبار نہیں کرتے اور اپنی متاعِ حیات پاکستان میں رکھنے کی بجائے دیارِ غیر رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ اجتماعی طور پر جماعتوں اور گروہوں سے حب الوطنی کا تقاضا کرتے ہیں۔ پانامہ کا ہنگامہ آپ کے سامنے ہے، سوئس بینکوں میں گمنام خزانوں کی داستان بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ متحدہ عرب امارات کے اقامے کے فسانے بھی زُباں زدِ عام ہیں۔ یہ سب مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے پاکستانیوں نے کمایا پاکستان میں اور اپنی نسلوں کی بہتری کے لیے اسے چھپایا پاکستان سے باہر۔ وجہ کیا ہے؟ صرف یہ کہ وہ سوچ ہی محدود رکھتے ہیں، وہ اپنا کھیل ایک سے دوسرے دورِ اقتدار تک کھیلتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ پاکستان کا نام مثبت طور پر دنیا کے سامنے لانے میں وہ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ لیکن فرض کیجیے ان تمام مسائل کے باوجود کوئی سر پھرا اپنا سب کچھ پاکستان میں لگا دے، وہ دنیا بھر سے سرمایہ پاکستان کھینچ لائے۔ وہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جیبوں سے ڈالر، پاؤنڈ، یورو نکلوائے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کروا دے، اُس کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے؟ اس سوال کو اسی جگہ روک دیجیے اور آگے بڑھیے۔
90 کی دہائی میں قومی منظر نامے پہ ایک شخص اُبھرتا ہے ملک ریاض حسین، جس کی ترقی کی داستان ایسی ہے کہ کبھی کبھی تو اس پر حقیقتاً جھوٹ کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن اصل میں کچھ جھوٹ ہے نہیں اور سچ کے ایسے زاویے ہیں اس داستان کے، کہ خوشی بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی۔ ذرا سوچئے 90 کی دہائی میں ایک عام ٹھیکیدار سے کروڑ پتی بن جانے والا شخص ضروری نہیں کہ فرشتہ ہی ہو، لیکن یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ کتنوں سے اچھا بھی ہو۔ اس شخص کے پہلے پراجیکٹ کا کبھی خودجائزہ لینے جائیے، آپ ایک لمحے کے لیے دنگ رہ جائیں گے کہ کیسے اس شخص نے پاکستان میں عالمی معیار کا ایسا پراجیکٹ شروع کر دیا جس میں یہ پوری دنیا سے اہم عمارات، عجائبات کے ’’ریپلیکاز‘‘ بنائے جا رہا ہے؟ کیسے ملائیشیا، فرانس، برطانیہ اور پوری یورپی دنیا میں پھیلے فنِ تعمیرات کے شاہکار نمونے پاکستان میں عملی طو رپر بنائے جا رہا ہے؟ ’’مکانات مہنگے ہیں‘‘ یہ عام تاویل ملک ریاض حسین کے بحریہ ٹاؤن میں تمام تعمیرات کے حوالے سے دی جاتی ہے، لیکن آپ نے کبھی سوچا عام طور پہ کسی گاؤں میں بھی بنا کسی سہولت کے پکا مکان بنانے پہ خرچ کتنا آتا ہے؟ پانچ مرلے پہ پکی چھت ڈالنے کا کم از کم خرچ بھی تیس لاکھ سے تجاوز کر جاتا ہے، بنا تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی ہونے کے۔ لیکن اگر تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی ہو جائے اور گھر بھی شہر کے وسط میں تعمیر ہو، تمام تعمیر کے مراحل بھی آپ کو باقاعدہ ایک نظام کے تحت طے کرنے ہوں، اس نظام سے وابستہ بہت سے افراد فرائض بھی سر انجام دے رہے ہوں، تو لاگت کتنی ہو گئی؟ قیاس آرائی کے بغیر سوچئے۔ ملک ریاض کو فائلوں کو پہئے لگانے کا بیان دینے پر تختۂ مشق بنا دیا جاتا ہے۔ آپ ایک لمحہ رُکیے، سرکاری سکول میں داخلہ ہو، زمین کا فرد لینا ہو، ہسپتال میں مریض داخل کروانا ہو، بجلی کا بل درست کروانا ہو، گیس کا میٹر لگوانا ہو، فون لائن کی مرمت کروانی ہو اور اس جیسے دیگر ہزاروں روزمرہ کے کام بنا نذرانے کے آپ کو کرنے ہوں، تو سچ بتائیے گاہوپائیں گے؟
ملک ریاض نے ایسے ملک میں جہاں کچھ بھی ہاتھ پاؤں ہلائے بنا نہیں ہو سکتا، یقینا کچھ ایسے اقدامات بھی اٹھائے ہوں گے جو قابلِ توصیف نہیں، لیکن کیا اس کا حل یہ ہے کہ اس شخص کو ذہنی مریض بنا دیا جائے؟ کبھی یہ سر پھرا انسان صاحبِ ثروت لوگوں کو خط لکھتا ہے کہ ’’آئیں پاکستان کی مدد کریں۔‘‘ جہاں حکومت کچھ نہیں کر پاتی، وہاں صومالی قزاقوں سے پاکستانی چھڑا لیتا ہے، لیکن ہمیں یہ پسند نہیں کہ یہ ایک ٹھیکیدار سے دولت مند بنا، تو کیوں بنا؟ ہم اسے چھوڑیں گے نہیں۔ ہم مودی چائے والے کی توصیف میں قلابے ملا سکتے ہیں، ہم بل گیٹس کی سائیکلوں کی دکان کی مثالیں دیتے ہیں، لیکن جب ملک ریاض کہتا ہے کہ کسی دور میں اس نے ٹیکسی کا کرایہ دینے کے لیے گھر کا سامان بیچا ہے، تو لوگ قہقہے لگاتے ہیں۔ کیوں؟ کیا ملک ریاض اپنی تمام اچھائیوں برائیوں سمیت پاکستان میں سیمنٹ، کرش، تعمیراتی لکڑی، ٹائلز، سینیٹری، ہیوی مشینری جیسی ہزاروں صنعتوں کی روانی کا سبب نہیں بنا؟ بحریہ ٹاؤن کو بھی چھوڑئیے، آپ کبھی ان مریضوں سے ملئے جن کی سانسوں کی ڈور آج بحال خدا کی کرم نوازی کے بعد ملک ریاض حسین کا وسیلہ بن جانے کی وجہ سے ہے۔ یہ پیسہ پانی کی طرح ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج پہ بہا دیتا ہے، کیوں ؟ ککھ پتی سے لکھ پتی تو پاکستان میں ہزاروں افراد بنے، مگر کتنے ہیں جو کسی حوالے کے بنا آنے والی درخواست پہ بھی مدد کو پہنچتے ہیں؟ ملک ریاض اچھا ہے یا برا، کیا آپ نے سوچا چالیس ہزار سے زیادہ افراد باعزت روزگار کے ساتھ صرف پاکستان کے ایک ادارے میں کیسے کھپے ہوئے ہیں؟ چالیس ہزار افراد سے جڑے لاکھوں، دیگر ہزاروں لوگ کیسے مطمئن زندگی گزار رہے ہیں؟ آپ کو سڑکو ں پہ بحریہ ٹاؤن کی دوڑنے والی گاڑیاں دیکھ کے ملک ریاض کو گالی دینا یاد رہتا ہے، مگر کیا آپ نے سوچا ہے کہ پاکستان میں کتنے نجی ادارے ہیں جو ملازمین کو پک اینڈ ڈراپ آفر کرتے ہیں؟
ملک سے سرمایہ بھر بھر پرائے ملکوں میں لے جانے کا جب رجحان تھا، تو ملک ریاض پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ آپ اس کو بتائیے، یہ معاملات ٹھیک نہیں انہیں ٹھیک کرو۔ اس کو ذہنی مریض بنانے کی بجائے جو کچھ آپ غیر قانونی محسوس کرتے ہیں اور یہ ثابت نہیں کر پا رہے کہ یہ قانونی ہے، تو اسے موقع دیجیے کہ ان معاملات کو قانون کے دائرے میں لا سکے۔ یہ ایک ’’رئیل اسٹیٹ ایمپائر‘‘ کھڑی کر سکتا ہے، تو یہ ملک کے لیے اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ یہ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی بھاگتا نہیں، تو آپ اس پہ توجہ کیوں نہیں دیتے؟ ہر نیا دور ملک ریاض اور اس کے ادارے کے لیے نیا پیغام لے کے آتا ہے۔ کہا جاتا کہ اس کے بڑوں سے تعلقات ہیں، ایمان داری سے سوچئے کیا پاکستان میں اُصول پسندی کا رواج ہے؟ کیا پاکستان میں بنا تعلقات کاروبار ایک دن بھی کیا جا سکتا ہے؟ آج آپ اِسے وقت دے دیجیے کہ جہاں مسائل ہیں، اِتنا وقت لے لو اور ان معاملات کو حل کرو۔ یہاں ہر موڑ پہ نیا شاہکار حاضر ہے جس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا لیکن ملک ریاض نے انہونی نہ جانے کیا کر دی کہ آپ گلی محلے میں ملک ریاض کا نام لیں، تو سوچ اس سے آگے نہیں بڑھتی کہ ٹھیکیدار سے اتنی ترقی اس نے کیسے کی؟ آپ ملک ریاض حسین کو ایک موقع دیجیے معاملات درست کرنے کا۔ تا کہ اس کے ادارے کے ساتھ ہزاروں افراد اور ان کے لاکھوں خاندان کے افراد ذہنی اذیت سے باہر آ سکیں۔
اگر چھوڑنا نہیں ہے اور ملک ریاض کو جیل ہی بھیجنا ہے، تو ہونا کیا ہے؟ بس نہ رہے گا ملک ریاض، نہ رہے گا بحریہ ٹاؤن، نہ رہیں گے ہزاروں ملازمین، نہ رہیں گے ہزاروں خوشحال خاندان، اور نہ رہے گا ان افراد کی زندگیوں میں سکون۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔