من حیث القوم ہم سب اپنے رویوں میں آخری حد تک غیر ذمے دار ثابت ہوئے ہیں۔ ڈسپلن کی خلاف ورزی کر کے ندامت کا شکار ہونے کی بجائے ہم اس پر فخر کرتے ہیں۔ جلد باز اتنے ہیں کہ ایک لمحے کا ضیاع بھی برداشت نہیں کرتے۔ اپنی باری کا انتظار کرنا ہمیں کوفت اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیتا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
آپ کسی بھی مہذب ملک میں چلے جائیں، آپ کو جگہ جگہ لوگ قطاروں میں کھڑے نظر آئیں گے۔ کسی بس یا ٹرین کی ٹکٹ خریدنا ہو، بنک میں کوئی کام ہو، حتیٰ کہ سبزی بھی خریدنا ہو، تو جہاں دو لوگ اکٹھے ہوں گے، فوراً قطار بنا لیں گے۔ اس میں مرد و عورت کی بھی تمیز نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہاں ہجوم کی وجہ سے بھگدڑ مچنے کا کوئی تصور نہیں۔
ہمارے ہاں قطار میں لگنا توہین سمجھا جاتا ہے۔ اگر قطار بنانا بھی پڑے، تو چند جلد باز لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو قطار میں لگے افراد کی پروا کیے بغیر کاؤنٹر پر پہنچ جاتے ہیں۔ اگر ان کے رویے پر اعتراض کیا جائے، تو لڑنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کو کسی دوست یا وی آئی پی شخصیت کا فون آ جاتا ہے کہ فلاں شخص کا کام فوری کر دو۔ وہ مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈسپلن اور انتظار کی ہمیں تربیت ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے پورے معاشرے میں جگہ جگہ بے ترتیبی پھیلی نظر آتی ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے ملک کی بگڑی ہوئی معاشی صورتِ حال کے باوجود قریباً 70 ارب روپے کی لاگت سے مستحقین کے لیے ماہِ رمضان میں مفت آٹا سکیم شروع کی۔ دیکھا جائے، تو یہ بہت بڑا ریلیف پیکیج ہے۔ اِس کی اِفادیت اُن لوگوں سے پوچھیے جو اس سکیم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ حکومت کے اس بہترین پیکیج کی تحسین کی بجائے لوگوں نے سیاسی مقاصد کی خاطر اسے منفی انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثریت نے ایک عجیب سی احمقانہ بات کو وائرل کیا ہے کہ ’’اگر بجلی کے بل ہر ماہ گھروں میں پہنچ سکتے ہیں، تو آٹا کیوں نہیں پہنچایا جاسکتا؟‘‘
کسی ’’عظیم دماغ‘‘ نے محولہ بالا پوسٹ تخلیق کی اور لوگوں نے ثواب سمجھ کر اسے شیئر کرنا شروع کر دیا۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ بجلی کے ایک ہزار بلوں کا وزن 10 کلو آٹے کے ایک تھیلے کے برابر نہیں ہوتا۔ ایک آدمی بِل پکڑتا ہے اور دو گھنٹوں میں چار پانچ سو بل تقسیم کرلیتا ہے۔ اگر آٹے کے 500 تھیلے تقسیم کرنا ہوں، تو کتنے آدمی درکار ہوں گے جو کاندھوں پر تھیلے لیے گھر گھر پہنچائیں گے؟
اور اگر کسی گھر کو تالا لگا ہوگا، تو کیا دوبارہ چکر لگے گا؟ ڈھیر ساری ایسی قباحتیں درپیش ہوں گی کہ اس تجویز پر عمل درآمد ممکن ہی نہیں ہوسکے گا۔ بجلی کے بلوں اور آٹے کے تھیلوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہاں پر افراتفری کا یہ عالم ہے کہ آٹے کے ٹرک تک لوٹ لیے جاتے ہیں۔ کیا گارنٹی ہے کہ غیر مستحق افراد یہ آٹا تقسیم کنندہ لوگوں سے چھین نہیں لیں گے! حضور تجویز دیتے وقت اپنے دماغ کو تکلیف دے کر یہ بھی دیکھ لیا کیجیے کہ کیا اِسے عملی جامہ پہنایا بھی جاسکتا ہے یا نہیں؟
کارِ خیر کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کر کارِ بد ثابت کرنے کی غیر اخلاقی اور بھونڈی حرکت سے اجتناب فرمائیے۔
یہ آٹا مستحقین کے لیے آتا ہے اور انھی میں تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ عوام اگر صبر اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے قطاروں میں لگ کر اپنی باری پر کاؤنٹر تک پہنچنے کی عادت اپنالیں، تو بھگ دڑ مچے گی اور نہ قیمتی جانوں کا ضیاع ہی ہوگا۔
یہ سراسر ناجائز بات ہے کہ عوام کی غلطی کو حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اسے ملعون و مطعون کیا جائے۔ عجیب دوغلے رویے ہیں ہمارے کہ سیاسی جلسوں میں گھنٹوں ڈسپلن کے ساتھ شرکت کریں گے…… مگر جہاں پر حقیقت میں ڈسپلن کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں پر فخر کے ساتھ ڈسپلن توڑیں گے۔
آئیے، اپنی اپنی جگہ پر ہم سب عوام کو ایجوکیٹ کریں کہ قطار بنانا کیوں ضروری ہے اور ڈسپلن کی پابندی کی اہمیت کیا ہے؟ ہمارا یہ عمل ریلیف دینے والوں کی نیکی پر انھیں کوسنے سے کہیں بہتر ہو گا۔
برسبیلِ تذکرہ، ایک انگریز پاکستان میں اپنی گاڑی پر جا رہا تھا کہ اُسے بند ریلوے پھاٹک پر گاڑی روکنا پڑی۔ اُس نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی سائیکل پر پیچھے سے آیا۔ پھاٹک بند دیکھا، تو سائیکل کاندھے پر اُٹھا کر ریلوے لائن عبور کی اور سائیکل پر سوار ہوکر پیڈل مارتا ہوا یہ جا وہ جا۔ انگریز بڑا حیران ہوا کہ وقت کی اتنی زیادہ قدر کرنے والی قوم ترقی کیوں نہیں کرسکی؟ مگر اس کی یہ حیرانی اس وقت دور ہو گئی جب پھاٹک سے گزرنے کے بعد اُس نے دوسری طرف سانپوں کا مجمع لگائے ایک شخص کو دیکھا۔ وہ سائیکل والا اپنی سائیکل سے ٹیک لگائے بڑے انہماک سے مجمع دیکھ رہا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔