ہماری سابقہ ریاستِ سوات کی کچھ دستاویزات کو ملاحظہ کرنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک حکم نامے کو دیکھ کر اچنبھا ہوا۔ یہ حکم نامہ 9 جون 1960ء کو جاری ہوا جس میں والیِ سوات کی طرف سے یہ پابندی لگائی گئی تھی کہ والیِ سوات کے رشتہ دار (ماموں) یا کوئی بھی حکومتی اہلکار (سپہ سالار، وزیرِ مال، وزیرِ ملک، مشیران، نائب سالار، کمانڈر، تحصیل دار، حاکم اور مہتمم صاحب ) یا ان کا عملہ اور رشتہ دار کسی بھی شخص کے ساتھ اجارہ نہیں کرسکتا اور نہ اس طرح کے کسی معاہدہ میں شریک ہی بن سکتا ہے۔ آج سے تقریباً 60 سال پہلے انتظامِ مملکت کا ایسا بندوبست یقینا قابلِ تحسین ہے۔ تاریخِ اسلام تو ایسے واقعات کی نظیر ہی ہے کہ کس طرح حضرتِ ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد اپنے کاروبار سے ہاتھ دھوئے اور ایک عام شہری جتنا روزینہ لینے پر اکتفا کیا۔
اس قسم کے قانون کو بین الاقوامی طور پر "Conflict of interest’s prevention act” کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں کسی عہدے پر بیٹھے فرد کے ذاتی مفادات کو اس کی ریاستی یا تنظیمی فرائض و ذمہ داریوں کے آڑے آنے اور اسے نقصان پہنچانے سے پہلے ہی اس کا تدارک کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ کسی بھی عہدے پر بیٹھے فرد کی اولین ذمہ داری اپنے فرائض کو پوار کرنے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اس قانون کی ابتدا صوبہ خیبر پختونخوا کے پچھلے دور کی اتحادی حکومت نے کینیڈیین ماڈل (Canadian Model) کی طرز پر کی تھی، جسے بعد ازاں اپوزیشن اور حکومت نے اتفاق رائے سے اگست 2016ء میں منظور کرلیا تھا۔ اس قانون کی رو سے ایک سہ رکنی آزادانہ کمیشن صوبائی حکومت کی صواب دید پر قائم ہونا تھا جس کی سربراہی ایک ہائی کورٹ جج کے ذمہ لگائی گئی تھی۔ اس وقت اس بل کی تمام مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں نے تحسین کی تھی، اسے بہتر طرزِ حکومت کی طرف ایک بڑھتا قدم گردانا تھا اور بجا طور پر یہ توقع حق بجانب تھی، لیکن امرِ واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج تک اس کمیشن کا کچھ پتا نہیں جس نے اس قانون کو عملی طور پر لاگو کرنا تھا۔
جس حکومت نے اس قانون کو تشکیل دیا تھا، وہی اس کی بنیادی روح کی منافی سمت میں چلتی جا رہی ہے، بلکہ ہماری تو پوری تاریخ اسی طرح کے اللّوں تللّوں اور اپنوں کو نوازنے سے گندھی چلی آرہی ہے، جس میں کسی صاحب کے بھٹیوں کو لوہا چاہیے ہوتا ہے، تو وہ ریل کی پٹڑیاں نیلام کردیتا ہے اور کسی صاحب کی ہواباز کمپنی کو اٹھانا ہوتا ہے، تو قومی ائیرلائن کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے۔
وزیراعظم(نواز شریف) کی بیٹی کے لیے یوتھ افیئر کا عہدہ بنا دیا جاتا ہے، تو کہیں پولٹری کے کاروبار میں شریک (شہباز شریف) ہونے کی بنا پر اس کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لیے پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ کہیں پہ وزیرِ ریلوے اور اس کے شریک کار چار ریٹائرڈ جرنیل ریلوے کی زمین کو ہڑپنے کے ضمن میں نیب میں پیشیاں بھگت رہے ہیں، تو کہیں ملک ریاض جیسے ’’بگ باس‘‘ بحریہ ٹاؤن کے کیسوں میں دھمکیاں دیتے پھررہے ہیں کہ ’’ہاتھ نہیں لگانا، ورنہ بڑے بڑوں کے نام سامنے آجائیں گے۔‘‘
موجودہ سیٹ اَپ میں پوری صوبائی و مرکزی کابینہ میں کوئی ایک فرد ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا، جس کا کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد اس کے عہدے اور اختیار سے تصادم نہ کھاتا ہو۔
ہمارے مینگورہ کے ایم پی اے صاحب جو کہ ڈیڈک چیئرمین بھی ہیں، کے بڑے بھائی اور رشتہ دار تعمیرات کے ٹھیکیدار ہیں، جب کہ وفاقی وزیر مواصلات صاحب کے بارے میں ’’ٹرانسپورٹ کاروبار‘‘ میں ہمدمِ دیرینہ سے شراکت داری کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب پہ ہائی کورٹ میں ایک کیس اسی سلسلے میں فائل ہوا ہے کہ اپنی زمین واقع ’’مٹہ‘‘ کو برلبِ سڑک لانے کے لیے کس طرح ایک دوسرے شخص کی زمین کی سرکاری طور پر قطع و برید کی گئی۔
موجودہ بجٹ میں جس طرح سے چینی مافیا کو اضافی طور پر چوٹ دی گئی ہے، اس کا صرف جہانگیر ترین کو اندازتاً 30 ارب کا منافع متوقع ہے اور اس ظلم کی گواہی کسی اور نے نہیں بلکہ گھر کے بھیدی یعنی ’’اسد عمر‘‘ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں دی ہے۔
شوکت یوسف زئی صاحب جوکہ اطلاعات سے وابستہ ہیں، ایک اخبار کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ زرتاج گل صاحبہ کا اپنی بہن کو نوازنا تو ایک ضرب المثل بن چکا۔ بعد میں عمران خان کے حوالے سے بیان گھمایا گیا کہ ’’وزیر صاحبہ کی اس حرکت پر سرزنش کی گئی ہے۔‘‘
لیکن ہنوز ان کی بہن نیکٹا کی چیئر پرسن ہیں۔
اس ضمن میں سب سے زیادہ منظر عام پر آنے والا واقعہ مہمند ڈیم کا ٹھیکا ایک ایسی کمپنی (DESCON) کو دینا ہے جس کے عہدیدار اور مالکان (عبد الرزاق داؤد) حکومت کا اہم اور فیصلہ ساز حصہ ہیں۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ موجودہ حکومت پنجاب میں بھی اس قسم کے ایکٹ کو لانا چاہتی ہے، لیکن صرف ’’ایکٹ‘‘ لانے سے یہ کام ہونا ممکن نہیں۔ قوانین ہونے کے باوجود موجودہ صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی حکومت، ریاستی یا ادارہ جاتی عہدے پر فائز شخص کی بنیادی ذمہ داری اور فرض کو بارآور کرانے کے لیے قوانین کے ساتھ ساتھ احتساب اور شفافیت کا عنصر جب تک نظام میں داخل نہیں کرایا جائے گا، یہ بیل منڈے چڑھتے دکھائی نہیں دے گی، اور یہ قانون بھی محض تضیع اوقات اور لاحاصل مشق ثابت ہوگا۔

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔