مغلیہ عہد میں شاہی باورچی خانہ کئی شعبوں میں تقسیم ہوا کرتا تھا، جیسے رکاب خانہ، آبدار خانہ، میوہ خانہ، شربت خانہ، تمبل خانہ اور آفتابچی خانہ۔ اس کے تجربہ کار و ماہر باورچی ہوا کرتے تھے اور ان سب کا نگران وزیر اعظم ہوا کرتا تھا۔
شاہی باورچی خانے کے لیے سکھداس، دیوزیرہ اور جنجن چاول ہندوستان کے مختلف شہروں سے آتے تھے۔ حصار فیروزہ سے گھی آیا کرتا تھا۔ قاز، مرغابی اور اکثر ترکاریاں کشمیر سے آتی تھیں۔ بھیڑ،بکریوں، مرغ و قاز کو باورچی پال کر موٹا کرتے تھے اور دریا و تالاب کے کنارے انہیں ذبح کرکے ان کا گوشت دھویا جاتا تھا۔ اور پھر اس گوشت کو تھیلوں میں بھر کر ان پر مہر لگا دی جاتی تھی، جہاں اس گوشت کو دوبارہ دھو کر پکایا جاتا تھا۔
اندازہ لگایا گیا تھا کہ باورچی خانہ کا ایک روز کا خرچہ ایک ہزار روپیہ تھا۔
(ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’تاریخِ کھانا اور کھانے کے آداب‘‘ مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز لاہور‘‘ پہلی جلد 2013ء، صفحہ نمبر 33 سے انتخاب)