مَیں اپنے دوستوں کو مختلف حوالوں سے جانتا اور پہچانتا ہوں۔ یہ ادراک مجھے اُن کے اُٹھنے بیٹھنے، بولنے اور لین دین سے وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔ ان میں محمد پرویش شاہین صاحب سب سے الگ تھلگ ہیں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، اُن کی یہ عادت سب کو بھلی لگتی ہے کہ وہ کسی کی غیبت نہیں کرتے، چغلی نہیں کھاتے۔ اگر کسی سے خفا بھی ہوجائیں، تو اُس بندے کے متعلق خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ ہاں، وہ بہت بولتے ہیں۔ اور جب بولنے پر اُتر آتے ہیں، تو پھر کسی اور کو موقع نہیں دیتے۔ اور اگر کوئی ان کی باتوں میں کچھ بولنا چاہے، تو وہ بات کو کاٹ دیتے ہیں اور اپنی بات شروع کر دیتے ہیں۔
پرویش شاہین صاحب کو مَیں اُن دنوں سے جانتا ہوں جب وہ چملہ ضلع بونیر میں ایک سکول کے اُستاد ہوا کرتے تھے۔ یعنی میرا اور اُن کا تعلق 45 سال پر محیط ہے۔ وہ عالم بھی ہیں، فاضل بھی ہیں اور ایک اچھے مقرر بھی۔ بھلا کا حافظہ رکھتے ہیں۔ ڈھیر ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔ پختونوں کی تاریخ پر اُن کی گہری نظر ہے۔مؤرخ ہیں، محقق ہیں اور پشتو ادب کے اُستاد بھی ہیں۔
پرویش شاہین صاحب منگلور گاؤں (سوات) کے رہنے والے ہیں۔ وہ ایک بڑی ذاتی لائبریری کے مالک ہیں، جس میں بے شمار کتب موجود ہیں۔ وہ آثارِ قدیمہ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ بدھ مت پر اُنہیں کافی عبور حاصل ہے۔ وہ محکمۂ تعلیم سے وابستہ تھے، اور بحیثیتِ پرنسپل ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ جب وہ رو بہ صحت تھے، تو گرمیوں میں صرف دوپہر کا اور سردیوں میں بھی صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے اور خوب سیر ہوکر کھاتے تھے، لیکن گذشتہ چند سالوں سے کسی بیماری کی وجہ سے وہ ٹھوس غذا نہیں کھاسکتے۔
7 ستمبر 1995ء کو جب اُن کی شریکِ حیات وفات ہوئیں، تو وہ الائی ضلع بٹ گرام کے ایک سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ اُن دنوں ٹرانسپورٹ اور سڑکوں کا اتنا اچھا انتظام نہیں تھا، جب وہ گھر پہنچے، تو اُن کی بیوی کی تدفین تک ہوچکی تھی، یعنی وہ اپنی زندگی کی ساتھی کا آخری دیدار تک نہ کرسکے تھے۔
اُنہیں چوں کہ اپنی زبان پشتو سے پیار ہے،اس لیے وہ شروع ہی سے قوم پرست ہیں۔ اس وجہ سے ملازمت کے تمام عرصے میں مختلف حکومتوں نے اُنہیں ہوم اسٹیشن ملازمت کرنے نہیں دیا۔ چملہ، الائی اور پشاور کے علاوہ دیگر جگہوں پر وہ تعینات رہے ہیں۔ اُنہیں پشتون قوم پرستی پر مسلم لیگ، پی پی پی اور ایم ایم اے صوبائی حکومتوں نے سزا وار ٹھہرایا تھا۔ کیوں کہ پرویش شاہین کے پشتون نظریات ان سے چھپے نہیں تھے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ جب اے این پی کی حکومت دو دفعہ کے پی میں بنی، تو محمد پرویش شاہین کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ انہیں اپنی حکومت میں کوئی ریلیف نہ ملی، جس کا اُنہیں اور سوات کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کوافسوس ہے۔
محمد پرویش شاہین صاحب کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات ہیں۔ ہم نے اکٹھے پشتو ادب اور تاریخ کے لیے کام کیا ہے۔ وہ میرے ساتھ ’’سوات ادبی سانگہ‘‘ میں اعلیٰ عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ ضیاء الحق کے مارشل لا میں ادب کے حوالے سے ہم پر 16ایم پی اُو بھی لگا تھا، لیکن محمد پرویش شاہین بہت بڑے حوصلے کے مالک تھے، اُنہیں اپنی سرکاری ملازمت ختم ہونے کی ذرا برابر بھی پروا نہ تھی کہ یہ نوکری مجھ سے چلی جائے گی۔ وہ مختلف ادبی کانفرسوں (اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ) میں میرے ساتھی رہ چکے ہیں۔ اُن کی ہمراہی میں سفر کا جو مزہ تھا اور جس خوبی سے منزلیں طے ہوتی تھیں، وہ ناقابلِ بیاں ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پرویش شاہین کو شہرت دوام بخشنے کے لیے صوبائی حکومت منگلور گاؤں میں ایک لائبریری تعمیر کرائے اور اُس میں اُن کی تمام کتابیں رکھی جائیں۔ لائبریری کا نام ’’محمد پرویش شاہین‘‘ رکھا جائے۔ نیز اُنہیں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جائے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔