ایک پاکستانی صحافی باقر رضوی کے سفر نامے کی ایک ہلکی سی جھلک آپ کو بھی دکھاتا چلوں، جو سندھی اخبار کے صفحے ’’پنج رنگی‘‘ میں ایک سال تک قسط وار چھپا تھا۔
"سندھ کے شہر حیدر آباد سے براستہ واہگہ بارڈر جب رات کو امرتسر کے ریلوے سٹیشن پر اُترا تو پندرہ اپریل کا سورج ڈبکی لگا چکا تھا اور اُفق پر شفق کی سرخی ڈیرہ جماچکی تھی۔
امرتسر کا شہر رات کا استقبال کرنے کو پر تول رہا تھا۔ مجھے بھوک ستا رہی تھی۔ ایک قریبی ہوٹل میں کھانے کے لیے داخل ہوا۔ تنور پر گرم روٹیاں پک رہی تھیں۔ بیرے نے قیمہ اور دال کی پلیٹیں میرے سامنے رکھیں۔ دال کی اشتہا انگیز مہک میری بھوک کو اور بھی بڑھاوا دینے لگی۔ میں کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ خوب سیر ہونے کے بعد کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور ادائیگی کرنے لگا۔ موٹے دکاندار نے پیسے گنتے ہوئے کہا: ’’رات گزارنی ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ ہاں تھکا ہوا ہوں۔ ’’ابے چھوکرے، مہمان کو اوپر کے ہوائی کمرہ میں لے چل۔‘‘ تھوڑی دیر میں (راقم مذکورہ) کمرے میں براجمان تھا۔ واقعی ہوائی کمرہ تھا۔ اپریل کی خوشگوار بادِ شب دروازے سے گھستی مشرقی کھڑکی سے کودتی جا رہی تھی۔ میں نے کھڑکی میں سے جھانکا، رات کی کالی چادر امرتسر کے مکانوں، کھیتوں اور کھلیانوں کو اپنی آغوش میں لے چکی تھی۔ آسمان پر لاتعداد دیے ٹمٹما رہے تھے۔ نیچے ایک قریبی گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی بچی جھومتی جھامتی ڈگمگاتی اور تھوڑے سے فاصلے کو پلِ صراط کے سفر کی طرح طے کرتی اچانک اپنی والد کے پھیلے ہوئے بازو میں سما جاتی۔ شائد اُس نے ابھی ابھی ہی چلنا شروع کیا تھا۔ دونوں زور سے قہقہہ مارتے ہوئے ہنستے، مگر اُن کی ہنسی کی آواز مجھ تک نہ پہنچتی۔
صبح ناشتے کے بعد راقم نے مرکزی لٹریری کلب کے ہال کا رُخ کیا۔ صبح کی پہلی کرنیں دلفریب منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہال میں شعرا اور مہمانوں کی آوازیں ایک گونج کی طرح پھیل رہی تھیں۔ سٹیج سیکرٹری کی طرح ہال میں اور کئی خواتین ساڑھی میں ملبوس نظر آرہی تھیں۔ ہندو معاشرہ جو کسی زمانے میں راجپوتوں کی بہادری اور غیرت کے نام پر مشہور تھا، جہاں ہندو ناریاں شرم و حیا کا مجسمہ تھیں، آج سیکولر بھارت اور دیارِ غیر کی نام نہاد آزادی تلے مکمل مغربی طرز زندگی اپناتے ہوئے پردے کی قید سے آزاد تھیں۔
سٹیج سیکرٹری جو کہ قریباً بائیس سال کی ایک طرح دار خاتون نظر آ رہی تھیں کی آمد اور سٹیج پر ’’نمستے‘‘ کی پکار سے ہال خاموشی میں ڈوب گیا۔ مجھے پہلے دعوت نامہ ملا تھا۔ مشاعرے کے آغاز میں ایک نوجوان شاعرہ نے لفظوں کے موتی بکھیرنا شروع کئے، تو نہ جانے کیوں میرا دھیان پروفیسر سلیم کی طرف چلا گیا۔ ایسا ہی تو شعری ماحول اور پروگرام تھا، جب وہ ایک شاعرہ کے حسنِ گفتار و حسنِ صورت کا غلام بن گیا اور اپنی ازدواجی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ ایسا ہی تو ہوتا ہے جب عورت کا جادو چل جاتا ہے۔ ایسی ہی مجلسیں تو ہوتی ہیں، جہاں انسان سب کچھ بھول جاتا ہے۔ کسی کی زلفیں، کسی کے رُخسار کے ہلکے سے گڑھے یا کسی لب خنداں کا اسیر ہوکر مرد ایک ایسے جال میں پھنس جاتا ہے جس سے نکلنے کی ہر کوشش زندگی کی ڈور کو اور بھی الجھانے کا سبب بنتی ہے۔
پروفیسر سلیم کی ازدواجی زندگی جس میں دو حسین اور معصوم بچوں کی ملکوتی مسکراہٹوں کا رنگ اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا تھا، پھیکا پڑنے لگا۔ میرے سمجھانے کے باوجود بھی وہ آگے بڑھتا رہا۔ وہ شائد اُمید کی تتلی کے پیچھے بھاگ رہا تھا جو ہاتھ تو آتی ہے، مگر اُس کے رنگ اُڑ چکے ہوتے ہیں۔ وہ امید جو ایک خوبصورت جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ کل کس نے دیکھا ہے؟ دن مہینے بن کر سال بنتے چلے گئے اور پھر اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا۔ ایک مشہور سرکاری شاعر جو ایک وزیر کا چہیتا بھی تھا اور جس کی شاعری کی کئی کتابیں حکومت سے وابستگی کی وجہ سے مقبول ہوچکی تھیں، موصوفہ کو لے اُڑا۔ اُس کے پاس دولت کا جادو جو تھا، مگر سلیم کی بیوی اس بے وفائی کو دل کا ناسور بنا بیٹھی۔ میرے سامنے ہسپتال کا وہ منظر گھومنے لگا، جب پروفیسر سلیم سرجھکائے مریضہ کے قریب بیٹھا تھا۔ میرے دل کو ایک گھونسا سا لگا۔ پھول کی طرح مسکراتا اور ترو تازہ چہرہ کسی خزاں رسیدہ پتے کی طرح زرد اور خشک تھا۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، ہونٹ سفید، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی حنا ہے۔ عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے، مگر اپنے شوہر کی بے وفائی اسے زندہ درگور کر دیتی ہے۔ دو دن بعد ہی اُس نے زندگی کی آخری سانس لی اور پروفیسر سلیم اس بھری دنیا میں اپنے دو بچوں کے ساتھ اکیلا رہ گیا۔
مگر بہت کم لوگ بلکہ مرد اس بات کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ مخلوط محفلوں کا یہی انجام نکلتا آرہا ہے اور نکلتا آئے گا۔
آج بھارت کی اس شعری نشست میں جب سب مرد حضرات لفظوں کے پھول برساتے لبوں اور شوخ نظروں کے ہیروں سے چھلنی ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھ رہے تھے اور کسی شاعرہ کا مترنم شعر اُن کے جذبات میں ہلچل مچا رہا تھا، تو نہ جانے مجھے کیوں ایسا لگا کہ ایک اور ’’پروفیسر سلیم‘‘ محبت کی جھوٹی صلیب پر مصلوب ہونے جا رہا ہے اور ایک اور رفیقہ حیات، ایک اور ماں ہسپتال کے آہنی بستر پر خون تھوکنے جا رہی ہے۔ ایک اور گھر اُجڑنے جا رہا ہے۔ نہ جانے کیوں میرا دل اُداسی کے سمندر میں ڈوبنے لگا، میں اپنی نشست سے ’’سوری‘‘ کہتے ہوئے اُٹھا اور باہر برآمدے کے قریب اپنی ٹائی کی گرہ کھولتے ہوئے ہوٹل کی گاڑی میں بیٹھ کر واپس چل دیا۔ ہوٹل پہنچ کر چائے پی اور سوچنے لگا کہ میرا دوست کیا سوچتا ہوگا جس کی دعوت پر میں اس مشاعرے میں شرکت کے لیے آیا تھا؟ میں اپنے مزاج اور اپنے اُصولوں سے پیچھے ہٹنا اپنی توہین سمجھتا ہوں۔ نجانے ہمارے ادب کا ایک بڑا حصہ صرف عورت ہی کے گرد کیوں گھومتا ہے؟
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
میں جب سفر پر روانہ ہونے والا تھا، تو ایک شاعر دوست نے آنکھ مارتے ہوئے کہا تھا: ’’وہاں تو کافی مہ وشیں آئی ہوئی ہوں گی، مزا آئے گا شاعری کا۔‘‘
ایک زمانہ تھا جب ادیب کا معاشرے میں ایک مقام ہوتا تھا۔ اب نہ وہ پرانا ادیب ہے اور نہ وہ ادب نظر آتا ہے۔ جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے، وہ کتابیں خریدلیتے ہیں، جو لوگ پڑھ سکتے ہیں، وہ کتابیں افورڈ نہیں کرسکتے۔ شہروں میں کتابوں کی دکانیں نظر نہیں آتیں، جو تھیں اُن کو کمرشل پلازوں میں ضم کر دیا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کسی نے ہمارے ادب پر جادو کردیا ہے۔ کیوں کہ آج کے ادیب کا ذہن رہن رکھا جا رہا ہے یا رکھا ہوا ہے۔ کیوں کہ اس سامراجی غلام ملک میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ جب تک ذہن رہن نہ رکھا جائے ادیب کو سرکاری طور پر ادیب سمجھا ہی نہیں جاتا۔
ادیب ہی وہ چراغ ہوتا ہے جو زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کے دِیے جلاتا ہے۔ وہ کسی ظالم کے آگے کبھی نہیں جھکتا۔ آج بھی ایسے روشن ستارے ہمارے بیچ میں موجود ہیں، جن کے دم سے امید کے چراغ روشن ہیں۔
وہ انسانیت کے لیے لکھتے ہیں۔ معاشرے میں چھپی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ اُن کی نوکِ قلم سے نکلی ہر کہانی اس وطن کے ہر شہری کو اپنی ہی کہانی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں، اُن کی جیب میں بس اتنا ہی ہوتا ہے جس سے وہ ایک وقت کی روٹی خرید سکیں۔ کیوں کہ اُن کے سروں پر سرکاری ’’ہما‘‘ نہیں بیٹھی ہوتی، مگر وہ ناانصافی اور جبر کی کھیتی میں سچ کا ہل چلاتے رہتے ہیں اور امید کی فصل اُگاتے ہوئے امیر ہوجاتے ہیں۔”

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔