لیبر پارٹی کے نو منتخب سربراہ کیئر سٹارمر کے ایک بیان نے برطانوی سیاست ہی نہیں پاکستان میں بھی بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’کشمیر، بھارت اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ برطانیہ میں شہریوں کو تقسیم کرنے کے لیے اسے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ حیرت انگیز طور پر پانچ اگست کے بھارتی اقدام کا بھی انہوں نے دفاع کیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی وحدت پر نقب لگایاگیا۔ اس کی داخلی خودمختاری کو یک طرفہ آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ کیئرنے کہا کہ بھارت کاآئینی معاملہ بھارتی پارلیمنٹ کا مسئلہ ہے ۔
گذشتہ عام الیکشن میں لیبرپارٹی نے کشمیر پر دوٹوک مؤقف اپنایا تھا۔ پارٹی نے سالانہ اجلاس میں کشمیریوں کو حقِ خودارایت دینے کا مطالبہ دہرایا۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات کے لیے ایک بین الاقوامی کمیشن تشکیل دینے پر زور دیا جو کشمیر میں جبری گمشدگیوں سمیت انسانی حقوق کی صورتِ حال پر تحقیقات کرے۔ جیرمی کوربن، جو اس وقت لبیر پارٹی کے سربراہ تھے، نے برطانوی پارلیمنٹ میں بھارت کے پانچ اگست کے اقدام اور مسلسل لاک ڈاؤن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ فطری طور لیبر پارٹی پاکستانیوں کی آنکھ کا تارہ بن گئی تھی۔
جیرمی کوربن بائیں بازو کے نظریات کے علمبردار ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مساوات اور جمہوری آزادیوں کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ ان کے زمانے میں لیبر پارٹی کے اجلاسوں میں کشمیر خصوصی توجہ کا مرکز رہا۔ ردعمل میں پندرہ لاکھ کے قریب بھارتی ہندوشہریوں نے لیبرپارٹی کے خلاف الیکشن میں بھرپور مہم چلائی۔ کنزرویٹو پارٹی کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی کے نام سے ایک نیٹ ورک عرصے سے سرگرم ہے، جو دنیا کے چالیس ممالک میں ہندتواکا پرچار کرتاہے اور حکمران بی جے پی کی سیاسی فکر اور حکمت عملی کا ایک عالمی مظاہر ہے۔ لیبر کے خلاف اس نیٹ ورک نے بے پناہ سرمایہ کاری کی، حتیٰ کہ لیبر پارٹی کے ارکان خوف زدہ ہوگئے ۔
بھارتی شہریوں کے برعکس بارہ لاکھ کے قریب پاکستانی برطانوی شہری زیادہ تر لیبر پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ان میں کشمیری نژاد باشندوں خاص طور پر میرپورآزادکشمیر سے نقلِ مکانی کرنے والوں کی اکثریت ہے ۔ لیبرکے برعکس کنزرویٹو پارٹی اسرائیل کی بے جا حمایت کرتی ہے۔ اکثر اوقات اس کے لیڈر مسلمانوں کے جذبات کی دل آزاری کرتے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم بورس جانسن سے بھی ایسے بیانات منسوب ہیں جو مسلمانوں کو سخت ناگوار گزرے۔ علاوہ ازیں لیبر پارٹی عمومی طور پر تارکین وطن کے بارے میں لچک دار رویہ رکھتی ہے ۔
کئیر کے حالیہ بیان پر لیبر پارٹی کے اندر سے بھی نکتہ چینی کی جارہی ہے۔ انہیں باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ پارٹی اجلاس کے فیصلوں کو مشاورت اور سینئر لیڈرشپ کو اعتماد میں لیے بغیر تبدیل نہیں کرسکتے۔ علاوہ ازیں پاکستان اور آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے لیبر پارٹی کے ارکانِ پارلیمنٹ جو نہ صرف بااثر ہیں بلکہ جرأت مندی سے کشمیر پر آواز بھی بلند کرتے ہیں۔ پارٹی کے اندر بائیں بازو کی سیاسی فکر رکھنے والا دھڑابھی انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور کشمیر یوں کے ساتھ تقسیمِ ہند کے دوران کی گئی زیادتیوں کے ازالے کا آرزو مند ہے۔
جیسا کہ عرض کیا لیبر پارٹی کے اندر آزادکشمیریوں کا عمل دخل بھی خاصا ہے۔ تین سو کے لگ بھگ پاکستانی اور کشمیری نژاد باشندے صرف کونسلر ہیں۔ کئی ایک شہروں کے انتظامی معاملات میں ان کا عمل دخل بہت ہے۔ یہ کونسلر پاکستانی سیاست سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اور عمومی طور پر ہر سال اپنے گاؤں یا شہر کادورہ کرتے ہیں۔ جہاں ان کے اعزاز میں شان دار استقبالیہ تقریبات برپا ہوتی ہیں۔ یہ سیاسی اور سماجی شخصیات کشمیر کے دگرگوں حالات سے مسلسل باخبر رہتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے بھی اب کافی لوگ برطانیہ میں آباد ہوچکے ہیں۔ پانچ اگست کے بعد وہ بھی منظر عامہ پر آنے لگے ہیں اور خطرات کے باوجود کھل کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔
کشمیر میں حالات روز بہ روز بگڑ رہے ہیں۔ کنٹرول لائن پر محض گذشتہ چار ماہ میں جنگ بندی کی نو سو کے لگ بھگ خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ سرحدی علاقوں میں چلے جائیں، تو گولہ باری کی آوازیں دور سے سنائی دیتی ہیں۔ زمین لرزتی محسوس ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی نوجوانوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اپریل کے مہینے میں 29 نوجوان مختلف واقعات میں جاں بحق ہوئے۔ فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں بھی مسلسل تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ ہندواڑا میں آٹھ گھنٹے طویل جھڑپ میں ایک کرنل، میجر اور دو فوجی جوان ہلاک ہوچکے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر کہرام برپا ہے کہ کشمیری ایسے کیسے لڑاکے ہوگئے ؟
کشمیری صحافیوں کو گذشتہ چند ماہ کے دوران زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سینئر صحافیوں عاشق پیرزادہ، گوہر گیلانی اور فوٹوگرافر ’’زہرا‘‘ پر مقدمہ قائم ہوا۔ تھانے بھی کچھ صحافیوں کو طلب کیا گیا۔ کشمیر میں اب صرف سرکاری صحافت باقی زندہ ہے۔ مرضی سے اور سچ لکھنا جوئے شیر لانے کے متراف ہے ۔
کشمیر کی داخلی صورت حال اور بھارت میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ روارکھے گئے سلوک پر نشر ہونے والی رپورٹوں نے لیبر پارٹی کے اندر کشمیر نواز لابی کے نقطۂ نظر کو قوت فراہم کی ہے۔ سونے پہ سہاگا امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ ثابت ہوئی۔ امریکی کمیشن نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا۔ واشنگٹن پوسٹ، ٹائم میگزین، نیویارک ٹائمز اور گارڈین سمیت عالمی اخبارات اور ٹی وی چینلزنے اس رپورٹ کو بنیاد بناکر بھارتی اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو درپیش مشکلات پرخوب تبصرے اور تجزیے کیے۔ خاص طور پرشہریت کے حالیہ قانون اور کشمیریوں کو ہراساں کرنے اور ان کی سیاسی آزادیاں چھیننے پر عالمی میڈیا کافی سیخ پا ہے۔
عالمی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت کی اتنی بری تصویر مغربی میڈیا نے سرد جنگ کے زمانے میں بھی پیش نہیں کی تھی جب بھارت سوویت یونین کا ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا۔
مدت بعد مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کو بھی احساس ہوا کہ بھارت میں آباد مسلمانوں کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے۔ بیداری کی ایک لہر تیزی سے اٹھی۔ حتیٰ کہ کویت کی کابینہ نے ایک قرارداد کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اُو آئی سی جسے عرب ممالک نے رفتہ رفتہ عضوئے معطل بنا دیا ہے، نے بھی انگڑائی لی اور بھارتی مسلمانوں کی سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے دہلی کی سرزنش کی۔
متحدہ عرب امارات اور اردن کی شہزادیوں نے بھی بھارتی مسلمانوں کے خلاف چلنے والی مہمات پر آواز بلند کی۔
بی جے پی کی حکومت نے کشمیریوں اور مسلمانوں کے ساتھ برا سلوک تو کیا ہے، بھارت کا عالمی امیج بھی بگاڑ ڈالا۔ جمہوری، لبرل اور سیکولر جمہوریت والے دیش کی پہچان رکھنے والے ملک میں اب سرِعام شہریوں کو ہجوم پیٹتاہے۔ لکھنے اور بولنے والوں کو سرکاری سچ کے علاوہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں۔ مخالف سیاست دانوں کا ناطقہ بندکیاجاتاہے ۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتاتھا، فرق صرف اتنا ہے کہ اس عمل کو اب سرکار کی سرپرستی حاصل ہے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔