عموماً پاکستان کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں سے اکثریتی مسلم حلقوں کا رویہ تشدد پسندانہ رہتا ہے اور اقلیت کے ساتھ پاکستانی مسلمانوں کا رویہ درست نہیں۔
چند قابلِ مذمت واقعات کو بنیاد بنا کر بین الاقوامی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ ’’اقلیت‘‘ کی اصطلاح پاکستان میں عمومی طور پر غیر مسلم کیمونٹی کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جس پر غیر مسلم کمیونٹی اعتراض کرتی ہے اور اقلیت کے بجائے ’’مینارٹی‘‘ کی اصطلاح خود کے لیے بہتر محسوس کرتی ہے۔
دراصل یہ اصطلاح17ویں اور 18ویں صدی میں یورپی سیاسی نشیب و فراز کی پیدا کردہ ہے۔ اس زمانے میں طاقتور جب بھی کمزور پر فاتح ہوجاتا، تو اپنی قوت کے سہارے محکوم قوم کو اقلیت شمار کرتا۔ عموماً اقلیت کی اصطلاح ایسے نسلی، قومی، مذہبی، لسانی یا ثقافتی گروہوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو تعداد میں باقی آبادی کے مقابلے میں کم ہوں، اور جو اپنی شناخت کو قائم رکھنا اور فروغ دینا چاہتے ہوں۔ پاکستانی مسیحی اور دیگر اقلیتوں نے قیامِ پاکستان کی حمایت اس لیے کی تھی کہ یہ ان کا وطن تھا اور یہ بھی دیگر مسلم شہریوں کی طرح مساوی حقوق کی بات کرتے تھے۔
1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران میں اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سکھوں کے علاوہ تمام اقلیتوں نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا، جو تاریخِ پاک و ہند میں اقلیتوں کا معاہدہ کہلاتا ہے۔ اس معاہدے میں مسلم لیگ کی طرف سے سر آغا خان، شیڈول کاسٹ کی جانب سے ڈاکٹر بھیم راؤ میڈکر، ہندوستانی اینگلو کی طرف سے راؤ بہادر پاتیر سلوان اور یورپین مسیحیوں کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کو تحریکِ آزادی کے دوران میں اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 22 دسمبر1939ء میں جب اونچی ذات کی ہندو پالیسیوں کے احتجاج میں قائد اعظم کی کال پر کانگریسی وزارتوں میں مسلمان نمائندوں کے مستعفی ہونے پر یومِ نجات منایا گیا، تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ یومِ نجات میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی، مسیحیوں اور لاکھوں کی تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئی۔
23 مارچ 1940ء کو مسلم لیگ نے مسلم لیگ سالانہ اجلاس لاہور میں تاریخ ساز قراردادِ پاکستان پیش کی، تو اس اجلاس میں ستیا پرکاش سنگھا، سی ای گبن، ایم ایل رلیا رام، جوشو افضل الدین، الفریڈ پرشاد، ایف ای چوہدری، بہادر ایس پی سنگھا، آر اے گومز، ایس ایس البرٹ، راجکماری امرت کور بھی شامل تھی۔ ان کے علاوہ دیگر کئی شیڈول کاسٹ اور مسیحی رہنما بطورِ مبصر مدعو تھے۔ مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ نے ہر قدم پر قائد اعظم کا ساتھ اس لیے دیا کہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔ اسی وجہ سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت شیڈول کاسٹ راہنما جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی تھے۔ ان کے علاوہ کرن شنکر رائے، دھیریندر ناتھ دتہ، پریم ہری ورما، راج کمار چکرورتی، سرس چٹو پادھینا، بھویندرکمار دتہ،چندر موجدار، بیروت چندرمنڈل، سری ڈی رائے، نارائن سانیال، پریندر کار، گنگا سرن، لال اوتار، نارائن گجرال، بھیم سین، سی این گبن اور بی ایل رلیا رام جیسے شیڈول کاسٹ رہنما بھی شامل تھے ۔
قیامِ پاکستان سے پہلے 1935ء میں جیسویٹ مبلغین مشرقی شہر لاہور کے لاویلا ہال کو بین العقائد مکالمے کے مرکز کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح کا ایک اہم ادارہ کرسچین اسٹڈی سینٹر 1968ء میں راولپنڈی میں قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد مسیحی اور مسلم علما کو مذہب اور الوہی موضوعات پر بحث اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی دوستی، تفہیم اور تعاون کی بنیاد پر پُرامن طریقے سے مل جل کر رہنے کا پلیٹ فارم فراہم کرتا تھا۔ پاکستان میں جتنے بھی مذہبی نوعیت کے واقعات ہوئے، تو اس میں عوام سے زیادہ قصور ان لوگوں کا تھا جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے اپنے مقاصد کا حصول چاہتے تھے۔ پاکستان میں رہنے والی تمام مذہبی کمیونٹیوں سے زیادہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مینارٹی کی عبادت گاہوں سے زیادہ مسلمانوں کے مقدس مقامات، مساجد، مزارات، قبرستان، یہاں تک کہ جنازوں تک کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں مسیحی کمیونٹی کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ مل کر بھی ایک نشست مقابلہ کرکے نکال سکے، اس لیے دیگر غیر مسلم کمیونٹیوں کی طرح ان کے لیے بھی مخصوص نشستیں رکھی گئیں۔ اب اگر ان کے نمائندے ان کے حقوق کے لیے آئینِ پاکستان کے مطابق کام کریں، تو انھیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن بد قسمتی سے بڑی سیاسی جماعتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ان مخصوص نشستوں پر اپنے من پسند افراد کوبراجمان کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے عام نشستوں سے ایوانوں میں بھیجنے کا رجحان کم ہے۔
اس طرح کے مسائل غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہیں۔ ان کے درمیان بھی آپس کی بے اتفاقی کی وجہ سے نچلی سطح سے مناسب قیادت کو سامنے نہ لانا اہم مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت عمل میں آیا، جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ اسلام کا اہم نقطہ رہا ہے۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام، جبر کے بجائے امن کی تلقین کرتا ہے اور اسلام کا مطلب ہی سلامتی وامن ہے۔ اگر کسی فردِ واحد کی وجہ سے کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے، تو اسے معاشرے کی انحطاط پذیری قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اسے کسی فرد کا عدم برداشت کا رویہ کہا جاسکتا ہے، لیکن اسے اسلام کا پیغام یا منشور ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔اس سلسلے میں پاکستان کے قیام سے اول اور بعد میں قائداعظم کے افکار اور سیکڑوں تقاریر اس بات کا ثبوت ہیں کہ دو قومی نظریہ میں غیر مسلم اقلیت کے تحفظ کو ہمیشہ دہرایا گیا ہے اور اپنے عمل سے بھی ثابت کیا گیا ہے۔
غیر مسلموں کے مسائل کا حل ان کے نمائندوں کے پاس ہے۔ پاکستان میں ان کے سماجی مسائل کے حل کے لیے ان سے تجاویز لے کر آئین کا حصہ بنانا چاہیے، لیکن یہ سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ مذہب اور خاص کر اسلامی شعائر اور مقدس ہستیوں اور قرآن پاک کی توہین جیسے واقعات میں تفتیش سے قبل کسی کو بھی یکطرفہ گناہگار قرار دینا مناسب نہیں، جب اس کے لیے آئین میں سخت ترین سزا مقرر ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔