ہمارے سوات کے ٹی وی ہاؤس (شعیب سنز) میں جون کی گرمی میں بھاپ اُڑاتی گرما گرم چائے کی پیالی کا مزہ لیتے ہوئے نجانے کہاں سے ’’قصب گر‘‘ (نائی) کا ذکر چھڑ گیا؟ دوسرے ہی لمحے ہمیں اپنے خاندانی قصب گر یاد آگئے۔ نتیجتاً ذہن کے پردے پر نوے کی دہائی گویا فلمی مناظر کی طرح سین بدلنے والے انداز میں چلنے لگی۔ اپنی یادوں کو بازیافت کرنے سے پہلے ’’قصب گر‘‘ کی ذات کا جائزہ لیتے ہیں، تاکہ تاریخی حوالہ سے کوئی تشنگی باقی نہ رہے۔ واضح رہے کہ آگے آنے والا حوالہ ہمارے معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے والی ذات ’’نائی‘‘ جسے ہم ’’قصب گر‘‘ بھی کہتے ہیں، کے متعلق ہے۔
ای ڈی میکلیگن اور ایچ اے روز (E. D. Mecligan & H. A. Rose) اپنی کتاب ’’ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا‘‘ (شائع شدہ ’’بُک ہوم‘‘) صفحہ نمبر 434 پر لکھتے ہیں: ’’یہ ایک نہایت منظم پیشہ ورانہ ذات تشکیل دیے ہوئے ہیں اور اصولی طور پر نئے لوگوں کو اپنی برادری میں شمولیت کی اجازت نہیں دیتے۔ لفظ ’’نائی‘‘ بلاشبہ سنسکرت کے ناپِک (ناخن صاف کرنے والا) سے مشتق ہے۔ تاہم لوک ریت کے مطابق نائی کا مادہ ’’نہنا‘‘ (کبھی بھی انکار نہ کرنے والا) ہے۔ کیوں کہ ایک مرتبہ اکبر نے بیربل سے ایک اَن مُلا غلام یعنی بلا اُجرت کام کرنے والا غلام لانے کو کہا۔ بیربل نے ایک نائی کو پیش کیا جسے شہنشاہ نے ایک پیغام دے کر کابل بھیجا۔ نائی کوئی انعام طلب کیے بغیر فوراً روانہ ہوگیا۔ یوں اسے اَن مُلاکہا جانے لگا۔‘‘
قارئین کرام! اسی صفحہ پر آگے رقم ہے: ’’نائی کے متعدد لقب ہیں۔ ہندوؤں میں اسے ٹھاکر اور حتی کہ راجا، نائن کو رانی کہتے ہیں۔ خوشی کے مواقع پر دو اور القابات بھی استعمال ہوتے ہیں۔ چناں چہ کپورتھلہ میں کسی خاندانی سربراہ کی موت پر بین کرنے والی خواتین نائی کو راجا اور نائن کو رانی کہتیں اور بڑے جوش کے ساتھ ماتم کرتی ہیں۔ اس طرح منگنیوں اور شادیوں پر بھی نائی بڑی اہمیت رکھتا اور برادریوں کے ساتھ بیٹھتا ہے۔ چوں کہ سکھ اپنے بال نہیں ترشواتے، اس لیے یہ خیال کیا جاسکتا تھا کہ ان کے نائی نہیں ہوں گے لیکن معاملہ یہ نہیں۔ ان کے ہاں بھی نائی موجود ہیں جنہیں نہیرنا (ناخن تاشنے والا) کہتے ہیں۔‘‘
صفحہ نمبر 434 پر تفصیل کچھ یوں آگے بڑھتی ہے: ’’شاہ پور میں مقامی نائیوں کو جاجک (سنسکرت کے یاچک یعنی گداگر سے ماخوذ) کہا جاتا ہے۔ کوہاٹ میں وہ حجام کے علاوہ ڈوم اور ڈھولچی کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ مسلمانوں میں نائی ’’حجام‘‘ کہلاتا ہے جس کا لفظی مطلب قربانی دینے والا ہے۔ اس کا ایک لقب خلیفہ بھی ہے۔ مسلمان نائی کِسبت نامہ میں بیان کردہ روایات اور احکامات پر یقین رکھتے ہیں۔ نائیوں کے لیے سلیمانؑ کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ مثلاً اگر کوئی نائی جنوب کی جانب منھ کرکے کسی کی شیو کرنے لگے، تو وہ مخصوص بول پڑھے گا، لیکن اگر اس کا رُخ شمال کی جانب ہو، تو استرا پکڑنے کے وقت کچھ پڑھنا ضروری ہے۔ اسی طرح قینچی یا نہیرنا استعمال کرنے، دانت نکالنے وغیرہ کے لیے بھی مخصوص بول ہیں۔‘‘

دادا جان سر منڈوانے اور داڑھی کی تراش خراش کے لیے گھر کے دروازہ کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی چوکی پر بیٹھ جاتے اور قصب گر ماما استرا تیز کرنے کے بعد پورے ہفتے کی خبریں دادا جان کے گوش گزار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا سر مونڈتے، مونچھ صاف کرتے اور آخر میں داڑھی تراشنے کے بعد انہیں فارغ کر دیتے۔

ہمارے پختون معاشرہ میں یہ روایت ہے کہ بیٹی یا بہن کے لیے ’’شوقدر یا اختر‘‘ (شبِ قدر یا عید) میں خاص حصہ بھیجا جاتا ہے۔ جتنا مجھے یاد پڑتا ہے، مذکورہ حصہ عموماً ایک تگڑا سا دیسی مرغ اور چار سیر (یعنی پانچ کلو) بیگمی چاول ہوتا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قصب گر ماما کو کام میں لایا جاتا۔ ایسے مواقع پر قصب گر ماما کی چاروں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہوتا۔ وہ یوں کہ جب اُسے یہاں سے روانہ کیا جاتا، تو اُسے کچھ پیسے تھما کر بھیجا جاتا، لیکن وہاں سے واپسی پر بھی اُسے اچھا خاصا حصہ ملتا۔ زیادہ تر اُسے سلوانے کے لیے کپڑا یا جوتے مل جایا کرتے۔
’’قصب گر‘‘ کے لیے کپڑوں اور جوتوں (سواتی چپل وغیرہ) کا انتظام اُس خاندان کے ذمہ ہوتا، جہاں وہ مختلف امور نمٹاتا۔ اس طرح سالانہ حاصل ہونے والی فصل میں بھی اُس کا حصہ ہوتا۔ اس حوالہ سے ہمارے دوست محمد ہادی سکنہ ملوک آباد کے بقول آج بھی موضع منجہ تحصیل کبل میں قصب گر رکھنے کا رواج قائم ہے۔ ’’میں نے جس خاندان سے شادی کی ہے، وہ بر خان خیل (منجہ تحصیل کبل) ہے۔ مذکورہ خاندان کا قصب گر ’’شیر انور خان‘‘ ہے۔ انہیں سالانہ فصل میں ٹھیک ٹھاک حصہ ملتا ہے۔ جب بھی خاندان میں شادی ہو، تو انہیں دس ہزار روپیہ نقد ملتا ہے جب کہ غم میں وہ بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔ شادی اور غم میں دیگی چاول تیار کرنا ان کا کام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عیدالفطر اور عید الضحیٰ میں گاؤں میں ہر خاندان کی طرف سے قربانی کی کھال، گوشت میں حصہ اور اپنی مرضی سے پائے یا اوجھڑی وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ عیدی کے پانچ سو یا ایک ہزار روپیہ ہر خاندان کی طرف سے اس پر مستزاد ہوتا ہے۔‘‘
اب آتے ہیں ان کاموں کی طرف جو قصب گر کے ذمے ہوتے تھے۔
جتنا مجھے یاد پڑتا ہے، ہمارے خاندانی قصب گر ماما ہر جمعہ کی صبح دروازہ کھٹکھٹاتے۔ ان کے اوقات موسمِ سرما کے الگ اور گرما کے الگ ہوتے تھے۔ سردیوں میں صبح کے وقت تقریباً 9 اور گرمیوں میں 8 بجے جیسے ہی ہمارے دروازے پر دستک ہوتی، تو سب سے پہلے دادا جان (حاجی محمد المعروف بزوگر) سر منڈوانے اور داڑھی کی تراش خراش کے لیے گھر کے دروازہ کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی چوکی (کٹکے) پر بیٹھ جاتے اور قصب گر ماما استرا تیز کرنے کے بعد پورے ہفتے کی خبریں دادا جان کے گوش گزار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا سر مونڈتے، مونچھ صاف کرتے اور آخر میں داڑھی تراشنے کے بعد انہیں فارغ کر دیتے۔ اس کے بعد بالترتیب ہمارے تایا جان، والد بزرگوار،چچاؤں اور ایک بڑے چچا زاد بھائی کی باری ہوتی۔ ان کے بعد ہماری باری آتی۔ میرے بعد چھوٹے بھائی اور دو عدد چچا زاد بھائیوں کی باری ہوتی۔ بڑوں کی حجامت بنانا ضروری عمل ہوتا، اس لیے انہیں جلدی فارغ کیا جاتا جب کہ ہم چھوٹوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا جاتا، یعنی ہمیں بال بنوانے میں اکثر اگلے ہفتے اور بسا اوقات تین ہفتوں تک کا انتظار کرنا پڑتا۔
اس کے علاوہ قصب گر ماما کا ایک اور اہم کام جو مجھے یاد ہے، وہ عیدالفطر یا عید الضحیٰ میں علی الصباح نقارہ بجانا ہوتا تھا۔ میرے نانا جی (غلام احد ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر) کے گھر واقع تاج چوک ہماری عید گزرتی۔ مجھے ان کے ہاں قصب گر ماما کا وہ مخصوص دمامہ ابھی تک یاد ہے۔ مٹی کی بنی ہانڈی پر جانور کی کھال کا نہایت باریک سا پردہ چڑھا ہوتا۔ قصب گر ماما نور کے تڑکے جیسے ہی نانا جی کے گھر کے سامنے ہاتھوں کے ضرب سے علاقائی طرز کی میٹھی موسیقی ترتیب دیتے، تو ہماری آنکھ کھلتی اور بستر سے چھلانگ لگا کر تال سے تال ملانے کی کوشش میدان گرمانے کی شکل میں ضرور کرتے۔ بخدا، آج بھی جب ذکر شدہ عمل یاد آتا ہے، تو اک بے ساختہ سی مسکراہٹ ہونٹوں پر ڈیرہ جما لیتی ہے۔
بقولِ سجاد احمد (منیجر شعیب سنز پبلشرز) قصب گر کا ایک نہایت اہم کام بچوں کا گھوڑی چڑھانا (ختنہ) بھی تھا۔

………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔