حقیقت یہ ہے کہ انگریز کی دو سو سالہ غلامی نے ہمارا بھٹا بٹھا دیا ہے۔ ہمارے فکر و نظر کو تبدیل کر دیا ہے۔ اب پاکستان کو نام کی حد تک سیاسی آزادی حاصل کیے ہوئے 72 سال ہوگئے، لیکن ہم اب تک غیروں اور پرانے آقاؤں کے ذہن و فکر سے سوچتے ہیں۔ ان کے بتائے ہوئے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ ان کے قائم کردہ اداروں کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان 72 سال کے دوران میں ہمارے اوپر بڑے بڑے بحران آئے۔ بڑے بڑے سانحات واقع ہوئے، لیکن حرام ہے کہ ہمارے حکمرانوں یا قوم کے ذہن و فکر پر جوں تک رینگی ہو۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کو لیجیے۔ ہمارے ملک کا وہ اکثریتی صوبہ جس کے عوام نے تحریکِ پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔ شیر بنگال مولوی فضل حق نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی ۔ اسی صوبے کے عوام پر ہمارے انگریزی دور کے تربیت یافتہ بیورو کریسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے جس آمرانہ اور نوآبادیاتی طرز پر حکومت کی۔ ان کو غلام اور کمتر سمجھا۔ ان کے حقوق تلف کیے۔ ان پر ظلم کیا، جس کا نتیجہ صرف چوبیس سال میں ایسے افسوس ناک، الم ناک اور شرم ناک طریقے سے نکلا، جس میں ہمیں عالمی برادری میں رسوائی و شرمندگی کے ساتھ ہزاروں جانوں کی قربانی بھی دینی پڑی۔ ہمارے 90 ہزار فوجی دشمن کی قید میں چلے گئے۔ ہمارے جرنیل نے رمنا پارک ڈھاکہ میں دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ہمارے اپنے بھائی ہمارے دشمن بن گئے اور دشمن کے ساتھ مل کر ہماری تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ کا ایک اور شرمناک باب تحریر کیا۔ یہ درست ہے کہ یہ ایک عالمی سازش تھی۔ پڑوسی دشمن ملک بھارک کی کھلی مداخلت تھی، لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ دشمنوں کو سازش کا موقع کس نے فراہم کیا، اس سانحے میں ہمارا اپنا کردار کیا تھا؟ ہماری بیوروکریسی، ہماری طرزِ حکومت اور ہمارے حکمرانوں کے غلط اور مفادپرستانہ فیصلوں کا اس میں کتنا حصہ تھا؟ اس وقوعے کے پس منظر، حالات اور مختلف افراد و طبقات کے کردار کو معلوم کرنے کے لیے ’’حمود الرحمان کمیشن‘‘ قائم کیا گیا، لیکن آج تک اس کی تفصیلات قوم سے چھپا کر رکھی گئیں۔ اتنے عظیم حادثے پر مٹی ڈال کر فراموش کر دیا گیا۔
قارئین، جب سے ملک بنا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد اس میں اقتدار کے حصول، اس کے دوام و استحکام کا کھیل شروع ہو کر اب تک جاری ہے۔ ان نام نہاد سیاست دانوں کو ملک و قوم کے مسائل و مشکلات سے کوئی غرض و غائت اور دلچسپی نہیں، بلکہ صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے۔ یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں کہ ہر ٹولے نے صرف اقتدار کے حصول کے لیے وہ وہ شرم ناک حربے اور طریقے اختیار کیے ہیں کہ دیکھ کر اور سن کر شیطان بھی شرما جائے۔ غضب خدا کا کہ 72 سال کی اس طویل تاریخ میں زیادہ تر حکمرانی اس ادارے نے کی، جو ملکی سرحدوں کی رکھوالی، دفاع اور تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ بھلاجس ادارے کی تشکیل اور تربیت ملکی دفاع کے لیے کی گئی ہے، اس کو سول حکومت چلانے سے کیا کام؟ لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر فوجی آمرنے اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور ان کے دورِ حکومت کے بدترین نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ موجودہ سیاسی قیادت بھی انہی فوجی آمروں اور ڈکٹیٹروں کی پیداوار ہے۔ مرحوم بھٹو آٹھ سال تک ایوبی آمریت میں وزیر خارجہ، کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارتے تھے اور ان کو ’’سلطان صلاح الدین ایوبی‘‘ قرار دیتے تھے۔ اسی پیپلز پارٹی اور بھٹو صاحب نے جس انداز سیاست کو پاکستان میں متعارف کرایا، اس میں آج تک ہوش رُبا اضافہ ہو چکا ہے۔ بھٹو صاحب ہی نے ملک میں سول مارشل لا لگایا۔ اپنے مخالفین کو قتل کیا۔ گالی اور دشنام کو سیاست میں رواج دیا۔ پارٹی کو خاندانی اثاثہ بناکر موروثی سیاست کی بنیاد رکھی اور آج ہم زرداری اور بلاول کی شکل میں بھٹو صاحب کی باقیات السیئات کو بھگت رہے ہیں۔
اسی طرح نواز شریف بھی ضیاء الحق مرحوم کی فوجی آمریت کا کاشتہ و پرداختہ پودا ہے۔ فوجی گملے میں لگایا گیا یہ پودا کتنا خادار، بے ثمر اور ملک و قوم کے لیے زہریلا ثابت ہوا ہے۔ تین دفعہ وزیر اعظم اور کئی مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب بن کر اس شخص نے مغلیہ دورِ حکومت کی یاد تازہ کردی۔ اس نااہل شخص کی حکمرانی کا نتیجہ ہم آج معاشی بحران کے طور پر بھگت رہے ہیں۔ اس شخص نے اپنے دورِ حکومت میں فوجی ادارے کو سول معاملات میں مداخلت کا راستہ دکھایا۔ آج جب یہ شخص اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اقتدار و اختیار سے محروم ہو کر قید و بند کی سزا بھگت رہا ہے اور سلاخوں کے پیچھے زندگی کے شب و روز گزار رہا ہے۔ اسی شخص نے اپنے لیے محلات تعمیر کیے۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملکی سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔ جائیدادیں بنائیں اور غیر ملکی قرضے لے کر ملک کے بچے بچے کو مقروض کیا۔ آج جب ہم سالانہ دوہزار اور تین ہزار ارب صرف سود کی مد میں ادا کرتے ہیں، تو یہ صرف اس شخص کی وجہ سے ہے۔
ان پرانے قصوں کو بیان کرنے کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ آج ہم پر جو شخص تحریک انصاف نامی پارٹی کے نام سے حکمران ہے، یہ کس کی پیداوار ہے؟ یہ پارٹی اور اس کا لیڈر بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔ اس کو عجیب اور پُراسرار طریقے سے پروان چڑھایا گیا۔ اس کے لیے ماحول فراہم کیا گیا۔ اس کی شخصیت کو اُبھارا گیا۔ جس شخص نے صرف کرکٹ کھیلی ہو، جو کرکٹ کھیلنے والا ایک کھلاڑی ہو۔ اس کو آپ نے ملک کا عظیم سیاست دان، مدبر اور عقل و خرد کا ایک شاہکار بنا کر پیش کیا، لیکن اقتدار کے حصول کے لیے اس نے بھی وہی ہتھکنڈے اور حربے اختیار کیے، جو بھٹو صاحب نے اختیار کیے تھے۔ وہی مخالفین کے لیے گرے ہوئے نازیبا الفاظ اور عوام کو دھوکا دینے کے لیے ریاستِ مدینہ کا نعرہ بالکل بھٹو صاحب کی اسلامی سوشلزم کی طرح کا نعرہ نہیں؟ اقتدار کے حصول کے لیے اس نے لا اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا کیے۔اسلام آباد کو جام کیا۔ انتخابات میں اس کو جتوانے کے لیے خفیہ طاقتیں بروئے کار لائی گیں اور آخرِکار اس شخص کو اقتدار کی سنگھاسن پر بٹھا یا گیا۔ لیکن وہ شخص جس کے وعدے، دعوے اور لاف گزاف اب بھی لوگوں کے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ صرف دس ماہ کے اقتدار میں اپنے تما م وعدوں، دعوؤں میں ناکام ثابت ہوا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کا اعلان کرنے والا سب سے پہلے ان کے در پر کچکول لے کر کھڑا ہو گیا اور آج ہی آئی ایم ایف کے کنٹری چیف نے واضح الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ بجٹ ہمارے مشوروں کے مطابق بنایا گیا ہے۔ ٹیکسز ہماری ہدایات کے مطابق لگائے گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملک کے اندر مہنگائی اور گرانی کا طوفان برپا ہو گیا ہے۔ کیا غریب اور کیا امیر سب روتے پیٹتے ہیں۔ ہر طرف احتجاج اور فریاد کا ماحول ہے اور عمران صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’ان سخت فیصلوں کو برداشت کرو۔‘‘ صحیح ہے ، درست ہے کہ معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لیے سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں، لیکن متبادل انتظام کیا ہے؟ یہ سخت فیصلے کب تک لوگ برداشت کریں گے؟
چیف صاحب بھی مدد و تعاون کے لیے پس منظر سے پیش منظر پر آگئے، لیکن آخر آپ نے ان سخت فیصلوں کے ساتھ کچھ ایسے فیصلے کبھی کیے ہیں، جن سے عوام کے اندر امید اور حوصلہ پیدا ہو کہ چلو چند ماہ یہ گرانی برداشت کر لیں گے لیکن آئندہ کے لیے آسانی اور بعد میں بہترین نتائج سامنے آئیں گے، لیکن ایسا تو کچھ سامنے نظر نہیں آتا۔ جن سے ٹیکس لینا تھا، ان سے تو آپ نے اب تک کچھ بھی وصول نہیں کیا۔ تمام بڑے بڑے چور تو آزاد پھر رہے ہیں۔ پانامہ کیس میں نامزد 437 منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کا کیس تو سپریم کورٹ نے سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔ نواز اور زرداری سے اب تک آپ نے کیا وصول کیا؟ کیا صرف اتنا کافی ہے کہ نیب نے نہایت کمزور کیسز میں ان کو جیل بھیج دیا۔ کیا آپ نے اب تک زرعی ٹیکس لگانے کی بات کی؟ کیا آپ نے اب تک عوام کے سامنے اپنی پارٹی کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں سے وصول شدہ ٹیکس کا کوئی گوشوارہ پیش کیا؟ ایک بوری چینی میں 18 سو روپے کے اضافے کا کیا جواز ہے؟ حقیقت میں پاکستان کے اصل مسائل قومی خود مختاری کا قیام اور اندرونی طور پر لا اینڈ آرڈر کا نفاذ اور دونوں کا تعلق حکمرانوں کے مائنڈ سیٹ یا ان کی ذہنی و فکری ساخت سے ہے۔
اگر عمران خان کو قومی خود مختاری کی اہمیت کا احساس ہوتا، تو وہ کبھی بھی آئی ایم ایف کے پاس چند ارب ڈالر کے لیے جھولی نہ پھیلاتے۔ جس نے صرف چھے ارب ڈالر تین سال کے عرصے میں ادائیگی کے بدلے آپ کی قومی خودمختاری کو پائے مال کیا۔ اپنے سیاسی، معاشی اور تہذیبی فیصلے آپ پر مسلط کیے۔ اس وقت عمران خان اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ فوج میری پشت پر ہے اور کوئی میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، لیکن اندرونِ ملک جو صورت حال بن رہی ہے، شاید اس کا آپ کو علم نہیں۔ جب احتجاج اور غم و غصے کا یہ لاوا پھٹے گا، تو اس وقت کوئی اس کو قابو کرنے کے قابل نہیں ہوگا۔ ا س لاوے میں آپ کا اقتدار اور زعمِ باطل خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ قدرت نے آپ کو ایک موقع دیا جو آپ نے ضائع کردیا، اور قدرت بار بار کسی کو موقع نہیں دیتی۔
اگر آپ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہوتی، تو آپ نواز زرداری کے انجام سے عبرت پکڑتے۔
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔