انتخاب: حنظلۃ الخلیق
(نوٹ:۔ یہ تحریر دہلی سے شائع ہونے والے تاریخی اخبار’’ریاست‘‘ کے ایڈیٹر ’’سردار دیوان سنگھ مفتون‘‘ کی ہے، راقم)

’’ریاست‘‘ (اخبار) کا دفتر اجمیری دروازہ کے باہر تھا۔ سردار گوپال سنگھ ممبر پنجاب اسمبلی ( جو آج کل پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر ہیں اور اُو بی ای کا خطاب بھی حاصل کر چکے ہیں) اپنی امریکن بیوی مسز آئرس گوپال سنگھ کے ساتھ تشریف لائے اور غالباً تین ماہ کے قریب بطورِ مہمان رہے۔ امریکن اور انگلش عورتوں کی سوسائٹی بہت پُرلطف ہوتی ہے۔ اگر ان کے ساتھ بے تکلفی کے مگر بھائی بہنوں جیسے پاکیزہ تعلقات ہوں اور اُن تعلقات میں بدنیتی کا کوئی شائبہ نہ ہو، تو یہ عورتیں لطیف مذاق سے بہت محفوظ ہوتی ہیں۔ اُن میاں بیوی کی سوسائٹی کو مَیں زندگی بھر بھول نہیں سکا اور شاید یہ تین ماہ میری زندگی کا ایک بہترین حصہ تھا۔ اوپر کی منزل پر میرے پرائیویٹ دفتر کے ساتھ والے کمرہ میں یہ مقیم تھے اور میرے پرائیویٹ دفتر میں ہی میری خواب گاہ تھی ۔ تاکہ جب کام سے فارغ ہوجاؤں، تو سو جاؤں اور جب جاگوں تو فوراً کام شروع کر دوں۔ چناں چہ جب رات کو ہم کھانے سے فارغ ہوتے، تو یہ میاں بیوی میرے کمرے میں آجاتے۔ مَیں تھکاوٹ کے باعث پلنگ پر لیٹ جاتا اور یہ پاس کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے۔ اس طرح رات کے بارہ ایک بج جاتے اور بار ہا ایسا ہوا کہ سردار گوپال سنگھ میرٹھ وغیرہ دہلی سے باہر چلے جاتے۔ رات کو بھی واپس نہیں آتے اور مسز گوپال سنگھ حسبِ معمول اسی طرح رات کو بارہ ایک بجے تک میرے پاس بیٹھی باتیں کرتی رہتیں اور ایسا محسوس ہوتا کہ ایک بہن تنہائی میں اپنے بھائی کے پاس بیٹھی باتیں کر رہی ہے۔ مسز گوپال سنگھ خوب صورت تھیں، بائیس سال کی عمر امریکن سرخ و سپید رنگ اور پھر جوان لڑکیوں کا بناو سنگار۔ دن میں کئی کئی بار ساڑھی بدلتیں اور اپنی خوب صورتی کو شیشہ میں دیکھتیں۔
ایک روز ہم شام کو موٹر میں سیر کو جانے والے تھے۔ مسز گوپال سنگھ نے بناو سنگار کرکے بہت خوب صورت ساڑھی پہنی اور بار بار قدِ آدم آئینہ کے سامنے کبھی سیدھی کھڑی ہوکر کبھی ایک طرف کا حصہ اور کبھی دوسری طرف کا دیکھتیں۔ مَیں نے مذاق سے کہا کہ آپ کا حسن قدرتی طور پر ہی دہلی کے لوگوں کے لیے کافی خطرہ کا باعث ہے۔ اس قدر بناو سنگار اور خوب صورت ساڑھی کی کیا ضرورت تھی اور پھر آپ کے میاں دن بھر آپ کے پاس رہتے ہیں، جن کو سنگار دکھانے کی ضرورت ہے۔ اب باہر جاتے وقت کیوں یہ حسن کا زرہ بکتر پہن لیا۔ کیا شہر کے لیے قتلِ عام کا حکم جاری ہوگا؟ سردار گوپال سنگھ اور اُن کی بیوی دونوں مسکرادیے۔ مسکرانے کے بعد مسز گوپال سنگھ نے بناو سنگار کے فلسفہ پر بحث شروع کر دی اور جو کچھ کہا، مَیں اُس کو اُس کے بعد بھی بھول نہیں سکا۔ آپ نے فرمایا: ’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بناو سنگار کا باعث کیریکٹر کی کم زوری ہے، یا اس کی تہہ میں برے خیالات ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ عورت بناو سنگار کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں کرتی بلکہ انسانی فطرت ہے کہ انسان جب اپنے آپ کو خوب صورت دیکھتا ہے، تو خوش ہوتا ہے اور یہ خوشی صرف عورتوں تک محدود نہیں۔ مرد، بچے اور جانور بھی اس سے مسرت اور حظ حاصل کرتے ہیں۔ مرد آئینے کے سامنے کالر ٹائی لگاتا ہے۔ بالوں کو سنوار کر ٹوپی پہنتا ہے…… یا بنا بنا کر پگڑی باندھتا ہے، تو کیا وہ اپنی ٹائی، کالر یا پگڑی دوسری عورتوں کو دکھانے یا اُن کو محبت کی دعوت دینے کے لیے پہنتا ہے۔ آپ ایک بچہ کو لیجیے۔ اس کو نہلا دھلا کر اچھے خوب صورت کپڑے پہنائیں اور دیکھیے وہ کس قدر خوش ہوتا ہے۔ اس قدر خوش کہ دوسرے میلے کچیلے بچوں سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ عورت اگر بناو سنگار کرتی ہے، تو وہ صرف اپنی ذات کو خوش کرنے کے لیے۔ کیوں کہ عورت ہونے کے باعث فطرتاً اُس کو خوب صورتی کی زیادہ ضرورت ہے اور جب آئینہ کے سامنے یا دوسرے لوگوں کی نگاہوں میں اپنے آپ کو بہت حسین محسوس کرتی ہے، تو وہ انتہائی مسرور ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ برے خیالات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘‘
مسز گوپال سنگھ کے اس جواب نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اس سے پہلے میں ہر اُس عورت کو بد چلن سمجھتا تھا، جو بناو سنگار کرنے کے بعد بازار میں اپنے حسن کی لہریں پھینکتی ہوئی گزرتی ہے، مگر اب محسوس کرتا ہوں کہ میرا خیال غلط تھا۔ اس نمایشِ حسن کا بدچلنی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ عورت مرد کے مقابلہ پر فطرتاً زیادہ داد پسند ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اُس کا شوہر، اُس کی سہیلیاں، اُس کے رشتہ دار ہیں۔ دوسرے لوگ اگر زباں سے نہیں، تو اپنے دل میں ضرور اُس کے حسن اور خوب صورتی کی داد دیں…… اور اُس کے حسن کی کشش کو محسوس کریں۔ چناں چہ اِس کے ثبوت میں ایسے سیکڑوں واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں کہ کوئی حسین عورت بناو سنگار کے بعد لوگوں سے دادِ حسن لیتے ہوئے مسکرا دی۔ بعض بے وقوفوں نے اِس نمایش حسن کو دعوتِ محبت سمجھ لیا اور اُس خاتون کے دل کو ٹٹولنے کے لیے اُس نے مذاق کیا، تو اُس خاتون نے اُس ’’عاشق‘‘ کی جوتوں سے مرمت کر دی۔
مَیں اپنے تجربہ کی بنا پر یہ کَہ سکتا ہوں کہ جو لوگ عورت کی فطرت سے ناواقف ہوتے ہوئے اُس کے بناو سنگار اور اُس کی نمایشِ حسن کو بدچلنی سمجھتے ہیں، غلطی پر ہیں…… اور جو عورت یہ کہتی ہے کہ وہ بناو سنگار صرف اپنے شوہر کو خوش کرنے کے لیے کرتی ہے، اور اُس کا اپنی ذات یا لوگوں سے خراجِ تحسین وصول کرنے سے اُس کا کوئی تعلق نہیں، تو وہ مکاری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے شوہر کو بے وقوف بناتی ہے۔ کیوں کہ عورت فطرتاً یہ چاہتی ہے کہ دنیا اُس کو حسین سمجھے۔ اُس کی فطرت کے ساتھ بد چلنی یا بدمعاشی کا کوئی تعلق نہیں اور عورت کے بناو سنگار کو بدچلنی سمجھنا عورت کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔