اسفندیار ولی خان کے سپوت اور راہ برِ تحریک خان عبد الولی خان کے نواسے ایمل ولی خان جب سے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ بنے ہیں، تب سے گاہے گاہے اُن پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔ تنقید کی وجہ اُن کے متنازع بیانات ہیں۔ وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایسا کہتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچتا رہتا ہے۔
آج کل اُن کے کچھ الفاظ مشہور ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مَیں عمران خان کے خلاف تھا ،خلاف ہوں اور ہمیشہ رہوں گا اور میرے پاس اُن کی مخالفت کے ہزار وجوہات ہیں۔‘‘
قارئین! جس صوبے کو عوامی نیشنل پارٹی نے ہر میدان میں آسمان کی بلندیوں پر پہچایا تھا، آج اُس کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ حیدر ہوتی اور ان کی ٹیم نے تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کیا تھا۔ صوبے کو دہشت گردی سے پاک کروایا تھا اور آج خیبرپختونخوا میں تعلیم اور امن کی صورتِ حال سب کے سامنے ہے۔
بہ طور ایک باشعور فرد ایمل ولی خان کی مایوسی بہ جا ہے، لیکن بہ طور پارٹی کے سربراہ اسے الفاظ کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ دراصل عمران خان کے ساتھ کروڑوں لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں اور ایک سیاست دان میں یہ خوبی ضرور ہونی چاہیے کہ وہ عوام کے جذبات کو اپنے لیے استعمال کرے۔ بہ جائے اس کے کہ اسے اپنے خلاف استعمال کرکے اپنے پاؤں پر کلھاڑی مارے۔
ایک سیاست دان کو انتہا پسند نہیں ہونا چاہیے۔ اُس میں لچک کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہوتا ہے اور ایک سیاست دان کو ذہنی طور پر ہر قسم کے حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
باچا خان بابا کے پڑ پوتے جس جماعت کے سربراہ ہیں، اُس کی ایک لمبی اور شان دار تاریخ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پشتونوں کے لیے سماجی، سیاسی ، معاشی اور تعلیمی میدان میں اُن کی خدمات کی فہرست بھی نہایت طویل ہے۔ آج کل یہ جماعت پشتونوں میں غیر مقبول کیوں ہورہی ہے؟ میرے خیال میں اس کی وجوہات درجِ ذیل ہیں:
عوامی نیشنل پارٹی کو اس حال تک پہنچانے میں عوام کی بے شعوری اور عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف کی بے حد مقبولیت کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کی کچھ اپنی خرابیوں کا بھی کردار ہے۔
عوام میں سے بیش تر سوچنے سمجھنے کی طاقت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے مسائل کے آسان حل پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ دلائل پر سوچ بچار جیسا مشکل کام کرنے کے بہ جائے جذبات کو مانتے ہیں۔ عمران خان کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ عوام کے جذبات کو اپنے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں اور اُنھوں نے یہی کچھ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرکے کیا، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم نہایت کم زور ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں رہنے کے باوجود جماعت کے سربراہان یہ نہ جان سکے کہ پروپیگنڈے کا استعمال کس طرح کرنا ہے؟ کیسے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرکے اُنھیں وسائل اور مسائل سے آگاہ کرنا ہے؟ وہ اُلٹا انھیں خود سے دور بھگاتے ہیں ۔
اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی میں موروثیت کا عنصر بھی بہت پایا جاتا ہے، جو جماعت اسلامی (جس سے میں نظریاتی طور بالکل متفق نہیں ہوں) کو چھوڑ کے باقی ساری سیاسی جماعتوں کی نمایاں خصوصیت ہے ۔ باچا خان بابا کی تعلیمات کا پرچار کرنے والی اس جماعت میں نئے چہرے بڑی مشکل سے سامنے آتے ہیں۔ یہاں نئے لوگوں کو مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ اسی لیے یہاں بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح قیادت بہ طور جاگیر تیسری نسلوں تک منتقل ہوتی ہے، جو اس کی زوال کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس جماعت کی تنظیم سازی نچلی سطح پر نہایت کم زور ہے۔
پچھلی بار جب انتخابات سے بہت پہلے میاں افتخار حسین صاحب سوات آئے تھے، تو قندیل میں ایک پروگرام منعقد ہوا تھا، جس میں وہ تحصیلِ مٹہ کے مختلف ویلج کونسلوں کے پارٹی عہدے داروں سے اُن کے ساتھیوں کے ناموں کے حوالے سے زبانی پوچھ کے اُن کا امتحان لے رہے تھے، تو اُن میں اکثر کو یہ پتا نہیں تھا کہ میرے دوسرے ساتھیوں کے نام کیا ہیں؟ (اس واقعہ کا میں عینی شاہد ہوں۔) راستوں سے لوگوں کو اُٹھا کر اُنھیں نام رٹوائے جاتے تھے، جو وہ پھر ڈر کی وجہ سے بھول جاتے تھے۔ اس کم زوری نے خصوصاً سوات اور تحصیلِ مٹہ میں پارٹی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
ہر پارٹی کی طاقت اس کے نوجوان اور طلبہ تنظیمیں ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے طلبہ کی سیاست پر پاکستان میں پابندی ہے، جس کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی خصوصی طور پر جمود کا شکار ہوچکی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان کو ہمیشہ یہ گلہ رہتا ہے کہ اُنھیں عزت نہیں ملتی۔ اس حوالے سے بات مشہور ہے کہ اگر آپ کے پاس پارٹی میں کوئی عہدہ نہ ہو، تو پھر آپ کسی کام کے نہیں، یعنی کوئی عہدے دار الیکشن کے دِنوں کے علاوہ آپ کو دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرے گا، جو کسی حد تک درست بھی ہے۔
منظور پشتون کی مزاحمتی سیاست کے بیانیے اور ایمل ولی خان کی اس پر اکثر تنقید نے بھی ڈھیر سارے پشتونوں کو پارٹی سے متنفر کیا ہوا ہے۔
اس طرح نام نہاد دہشت گردی کی وجہ سے بھی پارٹی نے بہت نقصان اُٹھایا ہے اور ابھی تک اُٹھا رہی ہے۔
قارئین! آخر میں یہ وضاحت کرتا جاؤں کہ عوامی نیشنل پارٹی کے زوال سے مجھے بھی دکھ ہوتا ہے، لیکن میرے نزدیک جب تک ان ذکر شدہ مسائل کو حل نہیں کیا جائے گا، تب تک عوامی نیشنل پارٹی چاہے جتنا بھی بہترین منشور لے کے آئے، خیبر پختونخوا میں دوبارہ اس کا برسرِ اقتدار آنا 2050ء تک بھی ممکن نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔