گذشتہ روز ٹی وی چینلوں پر ہوش رُبا خبر دیکھنے سننے کو ملی کہ لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو طلبہ کو الیکٹرک بائیکس چند روز تک تقسیم کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے الیکٹرک بائیکس کی قرعہ اندازی عدالتی حکم کے ساتھ مشروط کردی۔
معزز جج نے کہا کہ طلبہ کو پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف راغب کیا جائے۔ طلبہ کو الیکٹرک بائیکس دیں گے، تو وہ ’’وَن ویلنگ‘‘ کریں گے۔ طالب علم لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کے باہر جائیں گے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
معزز جج صاحب کے ان ریمارکس پر عوام کی جانب سے شدید ردِ عمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اک مَن چلے نے تو یہاں تک کَہ دیا کہ کہیں اگلا حکمِ امتناعی ان ریمارکس کے ساتھ لیپ ٹاپ اسکیم پر نہ آجائے کہ طلبہ کو لیپ ٹاپ نہ دیں، کہیں طلبہ ’’بلیو پرنٹ فلمیں‘‘ نہ دیکھ لیں۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب عدالتی فورم سے عوامی فلاحی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہوں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کیسے ’’بابے رحمتوں‘‘ نے جی ٹی روڈ پر واقع بدھو کمہار کے آوا اور شالیمار باغ کی بیرونی دیوار کو میٹرو ٹرین کی تھڑتھڑاہٹ سے بچانے جیسی بے ہودہ قسم کی وجوہات کی بنا پر ٹرین منصوبے پر 23 ماہ تک سٹے آرڈر جاری رکھے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ شالیمار باغ کی اس فرنٹ دیوار کے ساتھ پیدل نہیں چلا جاسکتا تھا۔ بہ وجہ نشئ حضرات کی جانب سے غلاظت کے ڈھیر اور اسی طرح جگر گردہ کے امراض کے لیے پاکستان کے سب سے بڑے رفاعی منصوبہ ’’پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ ہسپتال‘‘ کی انتظامیہ بہ شمول سمندر پار پاکستانی ڈاکٹروں کوذلیل و خراب کیا گیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس ہسپتال کی تعمیر سے قبل پاکستانیوں کو علاج کی غرض سے ہندوستان جانا پڑتا تھا، اور بابے رحمتے کی جانب سے اس ہسپتال کو آپریشنل ہونے سے روکنے کے لیے کیا کیا ڈرامے بازی نہ کی گئی، جس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ بابے رحمتے کے ڈاکٹر بھائی کا ہندوستان کے ہسپتالوں میں مریضوں کو ریفر کرنے کی کمیشن کا کاروبار ٹھپ ہونے کا اندیشہ تھا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
منصف خود انصاف کے طلب گار ہیں (فضل منان بازدا)
انتظامی ٹریبونلز اور خصوصی عدالتیں (ایڈوکیٹ محمد ریاض) 
بھٹو ریفرنس، مستقبل کے مورخ کو مواد ہاتھ آگیا (سید فیاض حسین گیلانی)  
دس جنوری ایک تاریخ ساز دن (ایڈوکیٹ محمد ریاض)  
ابھی حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج نے وفاقی دارالحکومت میں نان روٹی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔ روٹی کی قیمت کم کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد سے روک دیا۔ سٹے آرڈر جاری کرتے وقت معزز عدالت کو وکیل صاحب کو لاکھوں روپے کی فیس اَدا کرنے والے نان بھائیوں کی فکر لاحق تھی۔
ماضیِ قریب میں ججوں نے چینی کی قیمت پر ایکشن لیا، تو چینی اتنی مہنگی ہوئی کہ اب چینی کھاتے ہوئے بھی منھ میں کڑواہٹ محسوس ہوتی ہے۔
سی این جی مقدمہ سنا، تو سی این جی عوام کی دست رس سے باہر ہوگئی۔ کل تک سی این جی سٹیشن پر زیادہ سے زیادہ ڈسکاؤنٹ دینے کی دوڑ جاری تھی، مگر آج سی این جی سٹیشن نہ ہونے کے برابر ہیں۔
’’ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل‘‘ کی سالانہ رپورٹ 2023ء کے مطابق پاکستانی عدلیہ تیسرے نمبر پر کرپٹ ترین ادارہ ہے، مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کئی مواقع پر پاکستانی عدلیہ میں موجود ججوں کو ہر فلاحی عوامی منصوبے میں روڑے اٹکاتے ہوئے دیکھا گیا ہے، مگر انھیں اپنے ادارے میں موجود کالی بھیڑوں، کرپٹ افسران اور ماتحت اہل کار نظر کیوں نہیں آتے؟ سائلین کو داد رسی کے حصول کی خاطر جوتیاں گھسانے کے ساتھ ساتھ اپنی جائیدادیں تک بیچنی پڑجاتی ہیں۔
’’لا اینڈ جسٹس کمیشن‘‘ کی سالانہ رپورٹس کے مطابق پاکستانی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ کئی کئی ماہ تک عدالتوں میں ججوں کی خالی اَسامیاں پُر ہی نہیں ہوتیں، مگر عدلیہ کو ان معاملات میں سوموٹو ایکشن لینے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ عوامی فلاحی منصوبوں پر کئی کئی ماہ کے سٹے آرڈروں کی بدولت کاموں کو روک کر پھر بالآخر کام جاری رکھنے کی اجازت دے کر کر کروڑوں اربوں روپے کے نقصانات پاکستانی ریاست کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 17 5(3) کے مطابق عدلیہ کو آئین کی منظوری یعنی سال 1973ء سے 14 سال کے اندر آہستہ آہستہ ایگزیکٹو سے الگ کر دیا جائے گا…… مگر افسوس آج 51 سال گزرنے کے باوجود عدلیہ میں کئی معزز جج اپنے افعال کی بہ دولت بہ ظاہر انتظامی اُمور سے دست بردار ہوتے دِکھائی نہیں دیتے۔
کیا ہی بہتر ہوکہ عدلیہ میں موجود معزز جج صاحبان عوامی فلاحی منصوبوں کے برخلاف آنے والی فضول پٹیشن پر سٹے آرڈر جاری کرنے کی بہ جائے ان درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دے دیا کریں، تاکہ انھی قیمتی عدالتی اوقاتِ کار میں لاکھوں زیرِ التوا مقدمات کی طرف توجہ دی جاسکے، جس کی بہ دولت عدالت کے قیمتی وقت کی بچت کے ساتھ لاکھوں سائلین کی دادرسی بھی ہوسکے۔
کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر بننے والی ریاست اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے کی عالمی رینکنگ افسوس ناک اور شرم ناک حد تک زبوں حالی کا شکار ہے۔
کاش! ہمارے معزز ججوں کا دھیان عدالتوں میں پائی جانے والی کرپشن کی طرف بھی مرکوز ہوجائے، جس سے نہ صرف پاکستانی عوام میں عدالتوں پر اعتماد میں اضافہ ہوگا، بلکہ عالمی رینکنگ میں پاکستانی عدلیہ 139ویں نمبر سے اچھے نمبروں کی طرف گام زن ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔