انسانی اعمال میں جب تک عشق کو مرکزی مقام حاصل نہیں ہوتا، انسانی ارتقا ناممکن ہوتا ہے۔ وہی محبت اصلی اور کھری قرار پاتی ہے جسے دنیا تسلیم کرے اور اس کی گواہی دے۔ کیوں کہ اپنے منھ میاں مٹھو بننے سے بات نہیں بنتی۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کی عقیدت نے والدِ محترم کے دلِ نازک میں سوزو گداز کی ایک دنیا آباد کر رکھی تھی لیکن وہ بات جو والدِ محترم کی شخصیت کو اور بھی جاذبِ نظر بنا دیتی تھی، وہ نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کی دلی وارفتگی اور بے پایاں محبت کا اظہا ریہ تھا ۔ تاریخِ اسلام کا کو ئی اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کے سرخ و سفید رخساروں پر جب آنسوؤں کی لڑیاں موتیوں کی مانند چمکتی تھیں، تو ان کی شخصیت کو اور بھی دلکشی عطا کر دیتی تھیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ سرکار ِ دو عالم کا تذکرہ ہو اور والدِ محترم کی آنکھیں آنسوؤں سے لب ریز نہ ہوئی ہوں؟ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ ذکرِ رسول اللہ کو چھیڑا جائے، تاکہ ان کے دلِ بے تاب کی تسکین کا سامان مہیا ہوسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے اندر ایک ایسا عاشقِ رسول برا جمان تھا جو سرکارِ دو عالم کے نا مِ نامی پر اپنے آنسوؤں کا خراج دینے کے لیے بے تاب رہتا تھا۔ یہ عشقِ رسول کا اعجاز تھا یا ان کے دل میں جوش مارتی ہوئی عقیدت کا کمال کہ ان کا چہرہ ذکر ِ رسول سے اور بھی دمکنے لگتا تھا۔ ایک نور کا ہالہ ان کے چہرے کو اپنے حصار میں لے لیتا تھا، جس کا مشاہدہ گھر کا ہر فرد کرتا تھا۔
محبت واقعی ایسی نایاب اور اَن مول شے ہے کہ یہ انسان کے وجود اور اس کے اندر روح کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور انسان خود بخود محبوبِ خلائق بنتاچلا جاتا ہے۔
علامہ محمد اقبال ؔکے بارے میں مشہورتھا کہ محبوبِ خدا کے ذکر پر ان پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی جسے سمجھنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا تھا کہ ایسا کیوں ہو تا ہے؟ علامہ جی اے پرویز مارچ 1938ء کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح علامہ اقبال سرکارِ دوعالم کے ذکر پراپنے ہوش وحو اس پر قابو نہ رکھ پاتے تھے۔ ان کا گلہ رُندھ گیاتھا اور ان پر کھانسی کا ایسا شدید حملہ ہواتھا کہ ان کے لیے کلام کرنا ناممکن ہوگیا تھا۔ علم و ادب کی محفل تشویش کی نذر ہوگئی تھی۔ کیوں کہ سرکار ِ دوعالم کی محبت کی شدت ان کی ذات پر حاوی ہو گئی تھی اور وہ اسی کے حصار میں کھو گئے تھے۔ ہم سارے محوِ تماشا تھے کہ یہ بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیاہے ؟
سچ تو یہ ہے کہ ایسی محبت ہر انسان کا مقدر نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبالؔ، سرکارِ دو عالم سے محبت کی شمعیں جلاتے رہے اور دنیا اقبالؔ کی گرویدہ ہو تی چلی گئی۔ لوگ صدیوں تک اس محبت کی داستانیں دھرائیں گے، لیکن اس کی چاشنی پھر بھی کم نہ ہوگی۔ انھوں نے جس محبت، درد اور لطافت سے آقا کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، وہ صرف انھی کی ذات کا حصہ ہے۔عشق و محبت میں ڈوبی ان کی نادر رباعی
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یاسین وہی طحہ
یہ بات اہلِ نظر کے علم میں ہے کہ علامہ اقبالؔ جب حج کی سعادت سے بہرہ ور نہ ہوسکے، تو انھوں نے ارمغانِ حجاز میں اپنی تمناؤں کو زباں عطا کی۔ علامہ اقبالؔ نے تو یہی کہا تھا کہ میں مدینہ منورہ چلا تو جاؤں، لیکن کوئی مجھے بتائے کہ میں اپنے محبوب کی گلیوں سے کیسے زندہ سلامت لوٹ کر آسکوں گا؟ آنسوؤں کی لڑیوں میں کیا کوئی درِ یار کو چھوڑنے کا تصور کرسکتا ہے؟
علامہ اقبالؔ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے حج کی سعادت کا پروانہ ملا، تو و ہ سو رش کاشمیری کے آستانے پر پہنچے اور ان سے دریافت کیا کہ یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ میرے والدِ محترم ساری عمر سفرِ حجاز کو ترستے رہے، لیکن انھیں اذنِ زیارت نہ مل سکا۔ آج ان کے فرزندِ ارجمند کو جو کہ دنیا داری میں کھویا ہوا ہے، حج کی سعادت کے لیے چن لیا گیا ہے، جس کی منطق کو سمجھنا میرے لیے ممکن نہیں۔ براہِ مہربانی اس راز سے پردہ اٹھائیے۔شورش کاشمیری نے ڈاکٹر جا وید اقبال سے جواباً کہا کہ تم اس بات کو سمجھ نہیں پاؤگے۔ کیوں کہ یہ عاشقی کی دنیا ہے اور عاشقی کی دنیا میں عاشقوں کو بلا یا نہیں جاتا، عاشقو ں کی تڑپ خالقِ کائنات کو اچھی لگتی ہے۔ لہٰذا وہ اس تڑپ کو دیکھنا چاہتا ہے۔ عاشقوں کو کبھی کبھی درِ نبی پر حاضری سے روک لیا جاتا ہے، تا کہ ان کی تڑپ اہلِ جہاں کو عشق و محبت کے نئے معنوں سے روشناس کرواسکے اور ان کے لیے عشق و محبت کے نئے در کھول سکے۔ دل کا آئینہ شفاف ہو، تو منظر ضرور تشکیل پا تا ہے۔ محبت کا ذکر اہلِ عشاق کا کام ہے۔ یہ دھن دولت کے پجاریوں کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ مال و دولت کی سجی ہوئی منڈی میں محبت کا لفظ بذاتِ خود کسی عطا سے کم نہیں۔ اسے صفحۂ قرطاس پر وہی انسان بکھیر سکتا ہے، جس کا دل جوئے رواں کا مسکن ہوتا ہے۔ ایک ایسی ندی جس میں آنسوؤں کا راج ہو تا ہے۔ جب جنت کا راستہ مدینہ منورہ سے ہو کر جاتا ہے، تو پھر سب کی نظریں مدینہ منورہ پر کیوں مرکوز نہ ہوں؟ علامہ اقبالؔ نے بھی تو یہی کیا تھا اور اس شہرِ نور کی زیارت کی حسرت میں ساری عمر روتے رہے تھے، جس کا حال بیان کرنے سے مجھ جیسا دنیا دار قاصر ہے۔ البتہ اتنا ضرور کَہ سکتا ہوں کہ اقبالؔ نے عشقِ نبی میں اپنے آنسوؤں کا جو خراج پیش کیا، تاریخِ ادب میں اس کی نظیر ڈھونڈنا ناممکن ہے۔
ذرا عشق کا انداز دیکھیے:
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرا م
عشق فقیہِ حرم،عشق امیرِ جنود
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام
نام ور مصنف ناصر ادیب جن کا شمار میرے قریبی دوستوں میں ہو تا ہے، ایک دفعہ انھوں نے مجھ سے کہا تھا، ’’حرمِ پاک میں حج کے دوران میں ایک بھی آنسو میری آنکھ سے نہ ٹپکا، تو مجھے اپنے آنسوؤں پر شک ہونا شروع ہوگیا کہ شائد یہ خشک ہوچکے ہیں۔لیکن جیسے ہی مدینہ منورہ میں میری نظر گنبدِخضرا پر پڑی، تو اسی لمحے ناصر ادیب کی موت واقع ہوگئی اور ایک ایسے منگتے کا ظہور ہوا جس کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ جو کچھ خانہ کعبہ میں نہیں ہوتا، وہ مدینہ منورہ میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔‘‘
میرے یارِ غار صوفی ادریس احمد قریشی کاحال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ مَیں نے عشقِ نبی میں اسے ایک بچے کی طرح بلکتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے رخساروں پر آنسو ایسے بہتے ہیں جیسے کسی چشمہ سے پانی پھوٹتا ہے۔اس کا دلِ بے تاب ایک ایسی تلاش میں نکل چکا ہے جس کے راز سے کوئی دوسرا انسان واقف نہیں۔ اگر مَیں اپنے دیرینہ دوست عابد حسین قریشی ڈسٹرکٹ ایند سیشن جج (ر) کا ذکر نہیں کروں گا، تو ساری بات ادھوری رہ جائے گی۔ عابد حسین قریشی کا تعلق علم و ادب کے ایک ایسے حلقہ سے ہے جنھیں جدید سوچ کا حامل اور ترقی پسندی کی علامت سمجھا جا تا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے اندر عشقِ نبی کی لہر اپنی انتہاؤں کو چھوتی ہے۔ ان کی حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی کتاب ’’عدل بیتی‘‘ کا آغاز نعتِ رسولِ مقبول سے ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک منفرد واقعہ ہے کہ نثر کی کتاب کا آغاز نعتِ رسولِ مقبول سے ہو۔
دراصل ایسا ان کی دلی کیفیت کا اظہار یہ ہے، جس نے یہ انداز اپنایا ہے۔ جج صاحب کے ہاں سالانہ ختم کی محفل تھی جس میں اجمل سندھڑی سے عدل بیتی کی نعت سنانے کی فرمایش کی گئی تھی۔ جب محفل اس شعر پر پہنچی:
تمھی ختمِ نبوت ہو شہِ کون و مکاں تم ہو
ہر اک مشکل سے عابد ؔ کو تمھی نے ہی نکالا ہے
توجج صاحب کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوگئیں جو کوششِ بسیار کے باوجود رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ لہٰذا انھیں محفل سے اُٹھ کر جانا پڑا۔ میرے آقا کی محبت کا یہ کیسا اعجاز ہے کہ ان کی محبت میں انسان خود کو بھول جاتا ہے اورآ نسوؤں کی لڑیاں محبت کی ساری داستان بیان کرنے لگ جاتی ہیں؟کمال دیکھیے کہ عاشق جس راز کوچھپانے کی سعی کرتے ہیں، اک دن وہی طشت از بام ہوجاتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔