اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عدلیہ اس وقت شدید دباو میں ہے۔ایک طرف پی ٹی آئی کا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر عدمِ اعتماد ہے، تو دوسری جانب پارلیمان نئی قانون سازی سے عدلیہ کو زیرِ پا رکھنا چاہتی ہے، تا کہ عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے جاری ہوں۔ 12 جولائی کو سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد حکم ران اتحاد مخمصے کا شکار ہیں، جس سے نکلنے کی اُنھیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔ وہ ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے، لیکن اس کی کشتی بیچ منجدھار کے پھنسی ہوئی ہے۔ اس کی حالت دلدل میں پھنسے ہوئے ایک ایسے انسان کی ہے جو زور آزمائی میں مزید دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔دلدل میں پھنسے انسان کا دلدل سے نکلنے کا واحد حل ٹھنڈ ے دل سے حالات کا جائزہ لینا ہوتا ہے، تا کہ دلدل سے نکلنے کی کوئی نئی ترکیب آزمائی جاسکے۔
سچ تو یہ ہے کہ حکومت ایک نئی آئینی ترمیم کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہے، جو کہ بار آور نہیں ہو رہی۔ حکومت موجودہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت کو تین سال کے لیے مقرر کرنا چاہتی ہے، لیکن اس کے پاس پارلیمان میں مطلوبہ طاقت نہیں۔ حکومت اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی ذات اُن کی حکومت کے لیے استحکام کی علامت بن سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے جائے؟
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 12 جو لائی کے فیصلے نے حکومت کی اُمیدوں پر اوس گرادی ہے اور اُن کی ساری منصوبہ بندی غارت ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ اَب بھی اسی کوشش میں ہیں کہ الیکشن کمیشن ایک دفعہ پھر مخصوص نشستیں اُن کی جھولی میں ڈال دے، لیکن سید منصور علی شاہ کا چند روز قبل دیا گیا بیان ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے توہینِ عدالت کی کاروائی کے اعلان سے چیف الیکشن کمشنر سہم گیا ہے اور نئے منظور شدہ قانون کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کرنے سے ڈرا ہوا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے پھرتی دکھانے کی کوشش کی اور میاں برادران نے ہارس ٹریڈنگ کا پرانا حربہ استعمال کرنے کی جسارت کی، تو معاملہ مزید بگڑ جائے گا۔ سپریم کورٹ ایسی ہر مذموم حرکت پر سٹے آرڈر ایشوکر دے گی اور یو ں آئینی ترمیم کا منصوبہ چوپٹ ہوجائے گا۔ فلور کراسنگ کے قانون کے مطابق پی ٹی آئی کے بھگوڑے ممبران کا ووٹ شمار نہیں ہوگا اور پھر ٹائیں ٹائیں فش۔ پی پی پی جیسی لبرل ، جمہو ری اور ترقی پسند پارٹی بھی میاں برادران کے سیاسی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ اپنے حصے کی مخصوص نشستیں لینے کے بعد وہ ان تین کروڑ ووٹرز کے مینڈیٹ کوجو اس کے خلاف پڑا تھا، اسے بھی اپنی پارٹی کے لیے سمیٹنا چاہتی ہے جو کہ جمہوری روح کے منافی ہے۔
متناسب نمایندگی کے قانون کی روح سے پی پی پی کو اس کی سیٹیں مل چکی ہیں، لیکن دو تہائی اکثریت کے حصول میں اس کی دیوانگی اسے دوسروں کی سیٹوں پر ہاتھ صاف کرنے کی ترغیب دے رہی ہے، جو کہ اس کے بنیادی فلسفے سے تال میل نہیں کھاتی۔ پی پی پی کو تو بہ بانگِ دُہل اعلان کرنا چاہیے تھا کہ متناسب نمایندگی کے تحت مخصوص نشستیں اس پارٹی کا حق ہے، جس نے تین کروڑ ووٹ لیے ہیں۔ لہٰذا یہ نشستیں اس جماعت کو الا ٹ کی جائیں۔ سچ تو یہی ہے کہ یہ سیٹیں اس جماعت کا حق ہیں، جسے کروڑوں ووٹ پڑے ہیں۔ لہٰذا اسی کو ملنی چاہئیں، تا کہ جمہوری روح توانا رہے۔ یہ الگ بات کہ میاں برادران اور اسٹیبلشمنٹ سیٹیں اس مخصوص جماعت کو دینے سے گریزاں ہیں۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے ان کے کئی خواب بکھر جائیں گے۔ 25 اکتوبر کو قاضی فائز عیسیٰ ریٹائر ہوجائیں گے اورچیف جسٹس کی مسند پر سید منصور علی شاہ جلوہ افروز ہو جائیں گے، جن سے اسٹیبلشمنٹ اور میاں برادران خوف زدہ ہیں۔ریویو پٹیشن 15 ستمبر کی چٹھیوں کے بعد مقرر ہوگی اور اس وقت موجودہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت میں ایک ماہ سے بھی کم مدت رہ جائے گی۔ لہٰذا حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی سید منصور علی شاہ کے چیف جسٹس کی تعینا تی کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا۔
میری ذاتی رائے ہے کہ حکومت کے پاس وقت ختم ہوچکا ہے۔ وہ آئیں شائیں بائیں کر کے خود کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کا دامن پہلے ہی داغ دار ہے، لیکن اس طرح کے بے سرو پا اقدامات سے رہی سہی کسر بھی دور ہوجائے گی۔ حکومتیں پارلیمان میں دو تہائی اکثریت سے نہیں، بل کہ اپنے افعال و کردار سے مقبول ہوتی ہیں۔ اس کی عوام دوست پالیسیاں اس کو مقبول بناتی ہیں اورعوامی مفاد کی ترجیح ہی حکومتوں کی مضبوطی کی بنیاد ہوتی ہے، لیکن اس حکومت کے دورِ اقتدار میں تو ہر انسان شکایت کنندہ ہے اور مہنگائی کے جبر سے چیخ رہا ہے، لیکن حکومت ایسی کسی بھی آواز و کو در خورِ اعتنا سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنی مجبوریوں کا پلندہ کھول کر بیٹھ جاتی ہے اور عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے معذرت کرلیتی ہے۔
عوام کو حکومتی مجبوریوں سے نہیں، بل کہ اپنے مسائل سے دل چسپی ہوتی ہے۔ وہ اپنے اہلِ خانہ اور عزیز و اقار ب کو اذیت و پریشانی میں دیکھ کر حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ حکومت کے پاس بانی پی ٹی آئی پر الزام تراشیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ وہ معیشت کی تباہ کاری کا سارا الزام پی ٹی آئی پر لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دے لیتی ہے۔ حالاں کہ مہنگائی کا جن پی ڈی ایم کی حالیہ حکومت کا تحفہ ہے۔ بجلی کے بلوں نے جو تباہی مچائی ہوئی ہے، وہ بیان سے باہر ہے۔ جماعتِ اسلامی نے اس لوٹ کھسوٹ کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا، لیکن حافظ نعیم الرحمان سے بات بن نہیں سکی۔ اُلٹا اس دھرنے کے بعد بجلی مزید مہنگی کر دی گئی ۔ حافظ نعیم الرحمان کی شہرت ایک صاف گو اور با کردار انسان کی ہے، لیکن دھرنا اُٹھا لینے سے اُن کی ذات متنازع ہوگئی ہے۔ اُن کے اس اقدام نے اُن کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ دھرنا دیا تھا، تو عوام کے لیے کچھ ریلف لینابھی ضروری تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بل کہ اُلٹا بجلی مزید مہنگی کردی گئی۔ قوم ان سے اُمیدیں لگا کر بیٹھی ہوئی تھی، لیکن خفیہ سمجھوتے سے ان کی شخصیت داغ دار ہوگئی ہے۔ جماعتِ اسلامی کو اس دھرنے سے فائدہ کی بہ جائے نقصان اُٹھانا پڑا۔ مجھ جیسا انسان جو حافظ نعیم الرحمان کا مداح ہے، اسے بھی ان کے طرزِ عمل سے مایوسی ہوئی ہے۔ قوم حافظ نعیم الرحمان کی کام یابی کے لیے سراپا دعا گو تھی۔ کیوں کہ جماعت کی کا م یا بی ان کی اپنی کام یابی تھی، لیکن اچانک دھرنے کا اُٹھا لینا ابھی تک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔دھرنا عوامی مفاد کی خاطر تھا، تو عوام کو بتا یا جائے کہ اسے شب کی تاریکی میں کس کی ایما پر ختم کیا گیا؟ کون تھا جس نے دھرنے کو راتوں رات لپیٹ دینے کا حکم صادر کیا؟ جماعتِ اسلامی انتہائی منظم جماعت ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی معاہدے کے بغیر دھرنے سے اُٹھ جائے؟
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔عوام کو بتایا جائے کہ ایک اچھے بھلے دھرنے کو رات کی تاریکی میں کیوں لپیٹ دیا گیا اور کن شرائط پر اس کا خاتمہ کیا گیا؟ سوال مالی منفعت اور مفاد کا نہیں۔ کیوں کہ حافظ نعیم الرحمان کی ذات اس سے بہت بالا تر ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ یہ سب کسی جبرو اکراہ کا نتیجہ ہے جس کے تحت یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوا ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ خفیہ معا ہدہ منظرِ عام پر لایا جائے، تا کہ عوام کو خبر ہو کہ ان کے مفادات کا سودا تو نہیں ہوا؟ بجلی سستی یا مہنگی ہونا، تو بعد کی بات ہے، معاہدہ تو منظرِ عام پر آسکتا ہے، تاکہ عوام کو اطمینان ہوجائے کہ جماعتِ اسلامی نے گھٹنے نہیں ٹیکے، بل کہ عوامی مفادات کی صحیح ترجما نی کا حق ادا کیا ہے؟
سوال کسی کی ذات پر بد اعتمادی یا شکوک و شبہات کا نہیں، بل کہ اس معاہدے کا ہے جس کا منظرِ عام پر آنا انتہائی ضروری ہے، تاکہ صورتِ حال واضح ہو جائے اور عوام حکم رانوں کے خفیہ عزائم سے آگاہ ہو جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔