ہمارے ملک کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں مذہب کے نام پر جاہلیت کی تجارت کو فروغ دیا جاتا ہے اور مغرب، خاص کر امریکہ کی دشمنی کو اسلام پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اب مثال کے طور پر آپ اگر مذہبی عقائد کی بنیاد پر لیں، تو امریکہ، چین کے مقابلے میں ہم سے نظریاتی طور پر بہت قریب ہے۔ اس نے اپنے ڈالر پر ’’گاڈ از گریٹ‘‘ (God is great) مطلب اﷲاکبر لکھا ہوا ہے…… اور وہاں مسلمانوں کو سرکاری طور پر مکمل مذہبی آزادی ہے، جب کہ چین نہ صرف لادین ریاست ہے بلکہ وہاں پر مسلمانوں کو اس طرح کی مذہبی آزادی بالکل نہیں۔ اس کے باوجود آج چین ہمارا دوست ہے اور امریکہ دشمن۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مادہ پرست اور ہوس کار دنیا میں کوئی آپ کا دوست یا دشمن بالکل نہیں، بلکہ تعلقات کی بنیاد مفادات ہوتے ہیں۔ جن میں سے صفِ اول میں معاشی مفادات ہوتے ہیں، پھر سٹریٹجک مفادات اور آخر میں سیاسی یا ثقافتی معاملات…… لیکن ان کے سوتے بھی بہرحال آپ کے معاشی مفادات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ مثلاً: امریکہ کو نسبتاً زیادہ روشن خیال ایران منظور نہیں، لیکن مکمل تھیوکریٹک ریاست سعودیہ منظور ہے۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
دنیا بھر کے ممالک میں میڈیا سول سوسائٹی اور خاص کر عام عوام ریاست کی اس پالیسی کو مانتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔ البتہ ہر ملک خصوصاً شدید مذہبی رحجانات والے ممالک میں بہرحال ایک معمولی طبقہ ہمیشہ سے ہوتا ہے کہ جو یا تو بہت زیادہ مذہبی، نسلی یا علاقائی تعصب کا شکار ہوکر سوچتا ہے…… اور بے شک یہ طبقہ اپنی ہی ریاست کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔
دوسری طرف ہر ملک اور خصوصاً قومی ترقی کے نظریات اور جمہوری ممالک میں ایک مختصر گروہ آزاد خیال اور انسانیت دوست خیالات رکھتا ہے۔ یہ گروہ ریاست کے معاشی اور فوجی مفادات کے مقابل ہمیشہ حق کی بات کرتا ہے۔ اپنی ہی ریاست کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے۔
درجِ بالا دونوں فکری مدارس اور رویوں کی آج کے دور میں بہترین مثال بھارت ہے۔ پاکستان وہ واحد بدقسمت ملک ہے کہ جہاں مخصوص اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات جو کہ عمومی طور پر باہر بیٹھے آقاؤں کے مرہون منت ہوتے ہیں، کی خاطر ملک کے اندر خرابی پیدا کرتی ہے اور اس سے معاشی و سیاسی مفادات لیتی ہے۔ ہماری قوم کی جہالت کا یہ اعجاز ہے کہ وہ اپنی معصومیت میں اُن کی مددگار بن جاتی ہے اور اس کی واضح مثال پاکستان میں فرقہ واریت ہے…… یعنی آپ نوٹ کریں کہ جب بین الاقوامی نقشے میں ایران اور سعودیہ کا ٹکراو ہوتا ہے، تو ہمارے ملک میں شیعہ سنی فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ ڈالر، سعودیہ اور ایران سے آتا ہے اور یہاں مقیم مفادات والے اپنی قوم کو اس آگ میں جھوکنا شروع کردیتے ہیں۔
اسی پس منظر میں ہم اگر عافیہ صدیقی اور ملالہ یوسف زئی بارے غور کریں، تو ہماری قوم کا ایک طبقہ عافیہ کو مجاہدۂ اسلام اور ملالہ یوسف زئی کو مغربی ایجنٹ قرار دیتا ہے، جب کہ دوسرا طبقہ عافیہ کو دہشت گرد اور ملالہ کو پاکستان کا روشن چہرہ قرار دیتا ہے…… لیکن حسب روایت ملالہ کے حمایتی گروہ کی عافیہ سے نفرت نہیں، بلکہ ہم دردی ہے…… لیکن ملاملہ کو وہ ہیرو مانتے ہیں۔ بہرحال اگر ہم حقائق کو دیکھیں، تو یہ بات بہت حد تک صحیح ہے کہ ملالہ کا کردار مثبت ہے، عافیہ کا نہیں۔ آئیے، پہلے دونوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
عافیہ صدیقی کراچی میں پیدا ہوئی، امریکہ میں پڑھی اور وہیں ایک اپنے جیسے شخص سے شادی کرلی۔ پھر اس کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوئی اور وہ کچھ دہشت گرد اور انتہا پسند لوگوں سے متاثر ہوئی۔ اُن کے ’’کاز‘‘ کو دین کی خدمت سمجھ کر جوائن کرلیا۔ اُس کے اِس عمل میں اول اُس کا اختلاف گھر میں ہوا۔ نتیجتاً اُس نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی اور ایک خبر کے مطابق دوسری شادی انتہا پسندوں میں سے کسی ایک سے کرلی اور افغانستان میں نام نہاد جہاد کے لیے گئی۔
یہ بات یاد رہے کہ طالبان کے اُس گروہ کو نہ صرف دنیا بلکہ اسلامی دنیا نے ہمیشہ غلط سمجھا۔ پاکستان نے تو اُن کو باقاعدہ دشمن قرار دیا اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کی اکثر وارداتوں کا ذمے دار اُن کو قرار دیا۔ امریکہ نے جب افغانستان میں اس گروہ کے خلاف کارروائی کی، تو عافیہ کو گرفتار کرلیا اور بحیثیتِ امریکی شہری، اُس پر مقدمہ چلایا۔ بدقسمتی سے عافیہ نے اپنا مقدمہ بھی میرٹ پر نہیں لڑا، بلکہ اس کو ایک خاص مذہبی انداز دیا اور یہودیوں پر الزامات لگانا شروع کر دیے۔ اس عمل کا منطقی انجام تو پھر سزا ہی بنتا تھا۔ یہاں تک ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ خاص غلط نہ ہوا۔ البتہ عافیہ کو جو سزا سنائی گئی، وہ قابلِ مذمت ہے کہ ایک خاتون جو کہ ایک ماں بھی ہے، کو آپ 86 سال سزا کس طرح سنا سکتے ہیں؟ اِس سے تو بہتر ہے کہ آپ اس کو سزائے موت دے دیتے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ عافیہ کو وہاں بطورِ امریکی شہری لیا گیا۔ اس وجہ سے اس کا مقدمہ امریکی عدالتوں میں چلا۔ وگرنہ غیر ملکیوں کا مقدمہ اور جیل ’’گوانتا ناموبے‘‘ میں ہوتی ہے۔ اب آپ عافیہ کو سنائی جانے والی سزا پر تنقید کرسکتے ہیں…… لیکن یہ حقیقت ہے کہ عافیہ امریکی شہری ہیں۔ گرفتار امریکہ کے دشمنوں کے درمیان ہوئی۔ مقدمہ امریکہ میں چلا اور سزا بھی وہی ہوئی۔ اس میں پاکستان کا براہِ راست لینا دینا کچھ نہیں۔ سو ہم زیادہ سے زیادہ بحیثیتِ انسان ایک خاتون کو ایسی سنائی گئی سزا کے خلاف رائے قائم رکھ سکتے ہیں۔انسانی حقوق کے تناظر میں امریکہ سے اس کی رہائی کا مطالبہ بھی کرسکتے ہیں۔
لیکن ملالہ یوسف زئی کا معاملہ عافیہ صدیقی سے بہت مختلف ہے ۔ یہ بچی پاکستان کی شہری تھی اور ایک خاص ماحول میں انتہا پسند قوتوں کے خلاف لکھتی رہی۔ اُس دور میں جب انتہا پسندوں کے خلاف بڑے بڑے وزیر، مشیر اور سرکاری افسران بات کرنا مناسب نہیں خیال کرتے تھے۔ انتہا پسندوں کی دہشت اور خوف جوبن پر تھا۔ ایک 9 سال کی بچی ’’گل مکئی‘‘ کے نام سے سوات کے حالات پر لکھتی رہی…… مگر حالات نے پلٹا کھایا اور ریاست نے اُن دہشت گردوں کے خلاف فوجی ایکشن کیا۔ ان کی طاقت توڑدی، توپہلی بار دنیا کو معلوم ہوا کہ گل مکئی دراصل ملالہ یوسف زئی تھی۔ اُس کو باقاعدہ خیبر پختون خوا کی حکومت کی سفارش پر وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے بہادری کا تمغا دیا۔ اس بات کا جب انکشاف ہوا، تو انتہا پسندوں نے باقاعدہ ٹارگٹ کرکے ملالہ کو گولی مار دی، مگر مارنے والے سے بچانے والا بہرحال قوی ہے…… اور یوں ملالہ معجزانہ طور پر بچ گئی۔ اُس کو اول فوری طور پر پشاور پھر فوج کے راولپنڈی کے ہسپتال سی ایم ایچ شفٹ کیا گیا۔وہاں سے فوج کی نگرانی میں برطانیہ بھیج دیا گیا۔ اب ملالہ نہ صرف زندہ رہی بلکہ راتوں رات بین الاقوامی میڈیا کی ڈارلنگ بن گئی۔ مغرب سے مشرق تک عام لوگ اس بہادر بچی کے حالات جان کر اس پر فریفتہ ہوگئے۔ ہر طرف اُس کے نام کا ڈنکا بجنے لگا۔ اقوامِ متحدہ سے یورپی یونین تک، سنگا پور سے کنیڈا تک اُس کو سرکاری طور پر مدعو کرنا شروع کر دیا گیا۔ اُس پر ایوارڈ اور انعامات کی بارش شروع ہوگئی۔ اُس پر بننے والی فلموں کے بزنس کروڑوں ڈالر تک پہنچ گئے۔ اس کی کتاب بیسٹ سیلر بن گئی۔ اب بجائے ہماری قوم اس بچی پر فخر کرتی، ایک خاص سوچ کا طبقہ اس کے خواہ مخواہ خلاف ہوگیا۔ اس کو مغرب کی ایجنٹ بنا دیا اور یہ نفرت بلکہ میں یہ کہوں گا کہ حسد اب تک قائم ہے۔
اب عافیہ صدیقی کے حوالے سے جو نئی پیش رفت ہورہی ہے، اُس میں ملالہ یوسف زئی کو خواہ مخواہ شامل کیا جا رہا ہے…… جب کہ ملالہ تو اب بالکل غیر متعلقہ ہے۔ اُس نے برطانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کی اور وہاں ایک پاکستان نژاد نوجوان سے شادی بھی کی، لیکن ہمارے ذہنی مریض اُس کو معاف نہیں کرنا چاہتے۔ المختصر، اگر ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیا جائے، تو عافیہ صدیقی اور ملالہ یوسف زئی کا نہ کوئی موازنہ ہے نہ قدرِ مشترک۔ عافیہ صدیقی امریکی شہری ہے اور اس کا معاملہ امریکی ریاست سے وابستہ ہے، لیکن ملالہ یوسف زئی پاکستان کی بیٹی تھی اور ہے۔ ملالہ پاکستان کی عزت و وقار کا باعث بنی۔ دنیا اس کو انسان دوست اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف بطورِ استعارہ تسلیم کرتی ہے، جب کہ عافیہ صدیقی کو انتہا پسند عناصر کا حصہ۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے کہ ملالہ اور عافیہ کو ہیرو بنانے والے دونوں فکری سکول خود انتہا پسندی کا شکار نہ ہوں، بلکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ عافیہ صدیقی بحیثیتِ انسان، خاتون اور ایک ماں کے یہ حق رکھتی ہے کہ اس سے ہم دردی کی جائے، اس کی رہائی کے لیے آواز بلند کی جائے۔
دوسری طرف عافیہ کے ہم دردوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ عافیہ کی گرفتاری یا سزا سے بلواسطہ یا بلاواسطہ ملالہ یوسف زئی کا کوئی تعلق نہیں۔ آپ اس قوم کی دلیر بیٹی کو خواہ مخواہ کیوں تختۂ مشق بناتے ہیں…… بلکہ درحقیقت ہمارے ملک کی جڑ سے وابستہ بیٹی تو ملالہ ہی ہے۔ پھر ملالہ نے آپ کا کوئی نقصان نہیں کیا، بلکہ اس نے آپ کے لیے ’’نوبل پرائز‘‘ جیتا اور دنیا کے تقریباً تمام مہذب ممالک کے دارلحکومتوں میں پاکستان کا مقام بلند کیا۔
میرا چوں کہ عمر کا بڑا حصہ بیرونِ ملک گزرا ہے…… اور اس وجہ سے دنیا میں کافی جگہ سوشل تعلقات ہیں، اس وجہ سے مجھے معلوم ہے کہ ملالہ دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے۔ برسبیلِ تذکرہ، میری ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، جو جنوبی امریکہ کے ایک دور دراز ملک یوراگوئے اپنے کسی سابقہ کلاس فیلو دوست کہ جو اُن کے ساتھ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے، ملنے گئے…… تو انھوں نے بتایا کہ وہاں عمومی طور پر یا تو لوگ محترمہ بینظیر بھٹو کو جانتے ہیں یا پھر ملالہ یوسف زئی کو۔ کتنے مقامی لوگوں کو جب یہ بتایا گیا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے، تو انھوں کہا: ’’اچھا! پاکستان جہاں کی ملالہ یوسف زئی ہیں۔‘‘
اس لیے ہماری قوم کو اعتدال رکھتے ہوئے مذکورہ دونوں خواتین بارے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔