تحریر: وقاص نعیم 
اگرچہ ہمارا رویہ ہر لحاظ سے ہی الگ ہے، لیکن فنونِ لطیفہ کے بارے میں بھی ہمارے معاشرے کا رویہ بہت عجیب ہے۔ اس عجیب رویے کی زَد میں آنے والی اِک فن کارہ عابدہ پروین بھی ہیں، جن پر قدرے زبردستی کا ’’صوفی رنگ‘‘ چڑھا کر اُن کی گائیکی کو محدود کر دیا گیا۔
صوفی رنگ چڑھائے جانے سے بہت پہلے کی بات ہے، عابدہ پروین بہت اچھی غزل گائیکہ بھی ہوتی تھیں۔ یہ کلاسیکل راگ رنگ اور ٹھمری بھی گاتی تھیں۔ اُس وقت غزل گائیکی میں بہت منجھی ہوئی اور عمدہ خواتین موجود تھیں، جیسے فریدہ خانم، اقبال بانو، شاہدہ پروین، بلقیس خانم، نیرہ نور…… لیکن عابدہ پروین نے اُن سب کے درمیان غزل گائیکی کا الگ انداز قائم کیا۔
اُس وقت ای ایم آئی یا پی ٹی وی پر عابدہ پروین کے پروگرام نشر ہوتے تھے، تو اُس میں اگر پانچ عارفانہ کلام اور لوک گیت ہوتے تھے، تو پانچ عمدہ غزلیں بھی شامل ہوتی تھیں، جیسے ناصرؔ کاظمی کی غزل
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
ضیاؔ جالندھری کی غزل
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوش بو آئے
ساغرؔ صدیقی کی غزل
یہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
احمد فرازؔ کی غزل
تم کو دیکھے ہوئے گزرے ہیں زمانے آؤ
داغؔ دہلوی کی غزل
لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
حکیم ناصرؔ کی غزل
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
اور
کوئی اجنبی سا دیار تھا یہی وقت ہو گا پہر ڈھلے
لیکن پھر عابدہ پروین کو جیسے زبردستی اِک صوفی گلوکارہ کا چولا پہنا دیا گیا۔
یہ بات یاد رہے کہ عابدہ پروین شروع ہی سے عاجزانہ اور درویش منش طبیعت رکھتی تھیں اور صوفیانہ کلام ایسے ہی مست انداز میں گاتی تھیں، لیکن اَب حاضرین نے چوں کہ اُن کو صوفی کے درجے پر فائز کیا ہوا تھا، اِس لیے عابدہ کو اپنی رینج سے اونچے سُر لگا کر مسلسل جھومنا بھی پڑتا ہے۔
کہاں وہ وقت تھا، جب صوفیانہ کلام میں عابدہ پروین ’’دلڑی لٹی تئیں یار سجن‘‘، ’’تیرے عشق نچایا‘‘ اور ’’ماہی یار دی گھڑولی‘‘ جیسے کلام سُر، سُوز اور مستی کے عالم میں گاتی تھیں اور کہاں اَب اُن کو قوالوں کی طرح اونچے سروں اور نعروں کی صورت عارفانہ کلام گانا پڑتا ہے۔
اور بات گائیکی تک رہتی، تو بھی کچھ ٹھیک ہی تھی، لیکن لوگ زبردستی عابدہ پروین کے اندر اِک صوفی کی روح تلاش کرنے لگے۔
کئی بار ٹی وی پر ایسا ہوتے دیکھا ہے کہ موسیقی کے پروگراموں میں عابدہ پروین موسیقی پر بات کرنا چاہیں بھی، تو میزبان اُن سے صوفی اِزم کے بارے میں گفت گو کرنے لگتے ہیں اور پھر عابدہ بے چاری اپنے ذہن کے مطابق جواب دینے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ پھر نور الحسن اور دوسرے میزبان اس میں کوئی نہ کوئی نکتہ تلاش کر ہی لیتے ہیں اور جھوم اُٹھتے ہیں۔
جب تک انور مقصود میزبانی کرتے رہے، وہ عابدہ پروین سے کلاسیکل راگ رنگ اور غزل گائیکی بھی کرواتے رہے۔ اَب بھی کبھی کبھار عابدہ پروین غزل گاتی ہیں، لیکن وہ بھی بس
یار کو ہم نے جا بہ جا دیکھا
یا
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
تک ہی محدود رہتی ہیں ۔
بے شک عابدہ پروین کی موجودہ صوفی گائیکی نے ایک عالم کو متاثر کیا ہے اور ساری دنیا میں عابدہ پروین کی پہچان ہوئی ہے، لیکن اس سے ایک تو اُن کا فن محدود رہ گیا، ہم اُن کی اچھی غزل گائیکی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دوسرا، اپنے سکیل سے اونچے سُر لگا لگا کر اُن کی گائیکی کی وہ لطافت کم ہوگئی ہے، جو کہ قائم رکھی جا سکتی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔